بیٹی کا باپ کے ساتھ سونے کا حکم

فتویٰ نمبر:4060

سوال: میری بھانجی ہے جسے ان کے والد خود سلاتے تھے اب 3 سال کی ہے اور والد پوچھ رہے ہیں کہ بیٹی شرعاً کب تک ساتھ سو سکتی ہے یعنی ہے تو چھوٹی مگر عادت نہ لگ جائے؟

جواب عنایت فرمائیں!

اسی طرح بچہ ماں کے ساتھ کتنی عمر تک سو سکتا ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

حدیث پاک میں ارشاد ہے:

” عن عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنھما:ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:(مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر،وفرقوا بینھم فی المضاجع“۔

رواہ احمد:(١٨٧۔١٨٠/٢)و ابوداؤد فی کتاب الصلاة،باب متی یؤمر الغلام بالصلاة،١٣٣/١(٤٩٥)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو،اور اس پر ان کو مارو جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور ان کے بستروں کو علیحدہ کر دو“۔

لہذا اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جب بچہ یا بچی دس سال کے ہو جائیں تو بیٹا ماں کے ساتھ،بیٹی باپ کے ساتھ نہیں سو سکتے اور ان کے بستر آپس میں بھی علیحدہ کر دینے چاہیے۔

“قال الملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی:امر من التفریق بینھم:ای من البنین والبنات علی ماھو الظاھر۔۔۔ وقال ابن حجر:بھذا الحدیث اخذ ائمتنا،فقالو:یجب ان یفرق بین الاخوة والاخوات،فلایجوز حینئذ تمکین ابنین من الاجتماع فی موضع واحد۔۔۔ والفرق بینھم فی المضاجع فی الطفولیة تادیبا ومحافظة لامر اللہ تعالی”۔(مرقاة المفاتیح/کتاب الصلوة ٢٥٧/٢،رقم ٥٧٢ دارالکتب العلمیہ بیروت)

”قریب البلوغ اور بالغ لڑکے لڑکیوں کو ایک بستر اور ایک لحاف میں سونا حدیث کی رو سے مطلقا منع ہے،صرف زن وشوہر کے لیے اس کی اجازت ہےاور کسی کے لیے اجازت نہیں ہے“۔

(فتاوی محمودیہ:٢١١/١٩)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:10جمادی الاخری 1440ھ

عیسوی تاریخ:16فروری 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں