چہرے کے پردے کی فرضیت کے دلائل

عورت كا اجنبى اور غير محرم مردوں سے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، جس كے وجوب پر كتاب اللہ اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت، اور معتبر اور صحيح قياس مطردہ كے دلائل موجود ہيں:

اول:

كتاب اللہ كے دلائل:

پہلى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے يا اپنے سسر كے يا اپنے بيٹوں كے يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے يا اپنے بھانجوں كے يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے يا غلاموں كے يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائےاے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو تا كہ تم نجات پا جاؤ ﴾النور ( 31 ).

اس آيت سے عورت كے پردہ كے وجوب كى دلالت درج ذيل ہے:

ا ـ اللہ سبحانہ و تعالى نے مومن عورتوں كو اپنى عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ديا ہے اور عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ايسا معاملہ ہے جو اس كے وسيلہ كى حفاظت كے ساتھ ہوگا اور كسى بھى عاقل شخص كو اس ميں شك نہيں كہ اس كے وسائل ميں چہرہ ڈھانپنا بھى شامل ہے كيونكہ چہرہ ننگا ركھنا عورت كو ديكھنے اور اس كے حسن و جمال ميں غور و فكر كرنے اور اس سے لذت حاصل كرنے كا سبب ہے جس كے نتيجہ ميں وہاں تك پہنچنے كى كوشش اور رابطہ كيا جائيگا.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” آنكھيں زنا كرتى ہيں اور ان كا زنا ديكھنا ہے….

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اور شرمگاہ اس كى تصديق كرتى ہے يا پھر تكذيب كر ديتى ہے “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6612 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2657 ).

تو جب چہرہ كا ڈھانپنا عفت و عصمت اور شرمگاہ كى حفاظت كے وسائل ميں سے ہے تو پھر ا سكا بھى حكم ہے كيونكہ وسائل كو بھى مقاصد كے احكام حاصل ہيں.

ب ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر اوڑھ كر ركھيں ﴾.

گريبان سر ڈالنے والا سوراخ ہے ور الخمار اس چادر كو كہتے ہيں جس سے وہ اپنا سر ڈھانپتى ہے تو جب عورت كو يہ حكم ہے كہ وہ اپنى اوڑھنى اپنے گريبان پر اوڑھيں تو عورت كو اپنا چہرہ چھپانے كا بھى حكم ہے كيونكہ يا تو يہ اس سے لازم ہے يا پھر قياس كے ساتھ، كيونكہ جب حلقوم اور سينہ چھپانے كا حكم ہے تو بالاولى چہرہ ڈھانپنے كا حكم ہےكيونكہ يہ تو حسن و خوبصورتى اور جمال اور پرفتن جگہ ہے.

ج ـ اللہ سبحانہ و تعالى نے ظاہرى زينت كے علاوں باقى سب زيبائش اور بناؤ سنگھار كو مطلقا ظاہر كرنے سے منع كيا ہے اور ظاہرى زينت مثلا ظاہرى كپڑوں كا ظاہر ہونا تو ضرورى ہے اسى ليے اللہ تعالى نے ” الا ما ظھر منھا ” كے الفاظ بولے ہيں اور يہ نہيں فرمايا: ” الا ما اظھر منھا ” بعض سلف مثلا ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنھما، اور ابن سيرين وغيرہ نے قولہ تعالى:

” الا ما ظھر منھا ” كى تفسير چادر اور كپڑےاور كپڑوں كے نيچى طرف سے ( يعنى اعضاء كے كنارے ) جو ظاہر ہوں كى ہے پھر پھر اللہ تعالى نے انہيں زينت ظاہر كرنے سے دوبارہ منع كيا ہے ليكن جن كو اس سے استثنى كيا ہے ان كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے تو اس سے پتہ چلا كہ دوسرى زينت پہلى زينت كے علاوہ ہے تو پہلى زينت سے مراد ظاہرى زينت ہے جو ہر ايك كے ليے ظاہر ہو گى جس كا چھپانا ممكن نہيں اور دوسرى زينت سے مراد باطنى زينت ہے ( اور اس ميں چہرہ بھى ہے ) اور اگر يہ زينت ہر ايك كے سامنے ظاہر كرنى جائز ہوتى تو پھر پہلى زينت كو عام كرنے اور دوسرى كو استثنى كرنے ميں كوئى فائدہ معلوم نہيں ہوتا.

د ـ اللہ سبحانہ و تعالى نے غير اولى الاربۃ مردوں كے سامنے زينت ظاہر كرنے كى رخصت دى ہے اور غير اولى الاربہ وہ خادم ہيں جنہيں كوئى شہوت نہيں اور وہ بچے ہيں جو شہوت كو نہيں پہنچے اور نہ ہى عورتوں كى پردہ والى اشياء كى اطلاع ركھتے ہيں تو يہ دو چيزوں پر دلالت كرتا ہے:

1 – ان دو قسموں كے علاوہ باطنى زينت كسى اور اجنبى اور غير محرم كے سامنے ظاہر كرنى جائز نہيں.

2 – حكم كى علت اور مدار عورت سے فتنہ اور اس سے تعلق پيدا ہونے كے خوف اور خدشہ پر مبنى ہے، اور بلاشك و شبہ چہرہ حسن و جمال كا منبع اور پرفتن جگہ ہے، تو اس كا چھپانا واجب ہوا، تا كہ شہوت والے مرد اس سے فتنہ ميں نہ پڑيں.

ھـ ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان:

﴿ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے ﴾

يعنى عورت اپنے پاؤں زمين پر مت مارے كہ جو اس نے خفيہ پازيب اور پاؤں ميں زيور پہن ركھا ہے ا نكى جھنكار سنائى دے، چنانچہ جب پازيب وغيرہ كى آواز سن كر مرد كے فتنہ ميں پڑنے كے خوف سے عورت كو زمين پر پاؤں مارنے سے منع كيا گيا ہے تو پھر چہرہ ننگا ركھنا كيسا ہوگا.

ان دونوں ميں سے فتنہ كے اعتبار سے كونسى چيز بڑى ہے آيا عورت كے پازيب كى آواز جس كے متعلق يہ پتہ نہيں كہ وہ كيسى اور كتنى خوبصورت ہے اور نہ ہى يہ علم ہے كہ آيا وہ نوجوان ہے يا بوڑھى ؟ اور نہ ہى يہ معلوم ہے كہ آيا وہ بدصورت ہے يا كہ خوبصورت ؟

يا كہ خوبصورتى و جمال اور نوجوانى سے بھرپور چہرے كو ديكھنااور پرفتن حسن و جمال كا نظارہ كرنا جو اس كى جانب ديكھنے كى دعوت دے رہا ہو ؟

ہر انسان جسے عورتوں ميں تھوڑى بھى خواہش ہے وہ يہ جانے كہ دونوں فتنوں ميں سے كونسا بڑا ہے اور كون چھپانے اور مخفى ركھنے كا زيادہ حق ركھتا ہے.

دوسرى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ بڑى بوڑھى عورتيں جنہيں نكاح كى اميد ( اور خواہش ہى ) نہ رہى ہو وہ اگر اپنى چادر اتار ركھيں تو ان پر كوئى گناہ نہيں بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں تاہم اگر ان سے بھى ا حتياط ركھيں تو ان كے ليے بہت بہتر اور افضل ہےاور اللہ تعالى سنتا اور جانتا ہے ﴾النور ( 60 ).

وجہ دلالت يہ ہے كہ:

اللہ سبحانہ و تعالى نے بڑى عمر كى بوڑھى عورتوں سے ايك شرط كے ساتھ گناہ كى نفى كى ہے جو زيادہ عمر ہو جانے كى بنا پر مردوں كى رغبت نہ ركھتے ہوئے نكاح كى خواہش نہيں ركھتيں، كہ اس سے انكى غرض بےپردگى اور زيب و زينت نہ ہو.

اور ان بوڑھى عورتوں كے ساتھ حكم كى تخصيص اس بات كى دليل ہے كہ نوجوان لڑكياں جو نكاح كرنا چاہتا ہيں وہ اس ميں مخالفت حكم ركھتى ہيں، اور اگر چادر اتارنے كا حكم سب كو عام ہوتا تو پھر ان بورھى عورتوں كى تخصيص كرنے كا كوئى فائدہ نہ تھا.

اور قولہ تعالى:

﴿ بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں ﴾

سے نكاح كى خواہش كرنے والى نوجوان لڑكى كے پردہ كرنے كے وجوب پر ايك اور دليل ملتى ہے كہ اس كے ليے غالب يہ ہے كہ جب وہ اپنا چہرہ ننگا كريگى تو وہ اپناء سنگھار اور خوبصورتى و جمال ظاہر كرنا چاہتى ہے اور اپنى جانب مردوں كو متوجہ كرنا چاہتى ہے تا كہ وہ اس كى طرف ديكھيں اور اس كے سوا نادر ہے اور نادر كا حكم نہيں ہوتا.

تيسرى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾الاحزاب ( 59 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

” اللہ تعالى نے مومن كى عورتوں كو يہ حكم ديا كہ جب وہ اپنے گھروں سے ضرورت كے ليے باہر نكليں تو اوڑھنيوں كے ساتھ اپنے چہروں كو اپنے سروں كے اوپر سے ڈھانپ ليں اور اپنى ايك آنكھ ظاہر ركھيں “

اور جليل القدر صحابى كى تفسير حجت ہے بلكہ بعض علماء كرام تو كہتے ہيں كہ:

يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع حديث كے حكم ميں ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا يہ قول كہ:

” وہ اپنى ايك آنكھ ظاہر كريں ” صرف ضرورت كى بنا پر اس كى رخصت دى گئى ہے تا كہ وہ راستہ ديكھ سكيں، ليكن اگر ضرورت نہ ہو تو پھر اسے بھى ظاہر كرنا صحيح نہيں.

اور جلباب اس چادر كو كہتے ہيں جو دوپٹے كے اوپر ہوتى ہے اور عبايا كے طور پر استعمال كى جاتى ہے.

چوتھى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ ان عورتوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ اپنے باپوں اور اپنے بيٹوں اور بھائيوں اور بھتيجوں  اور بھانجوں اور اپنى ( ميل جول كى ) عورتوں  اور ملكيت كے ماتحت ( لونڈي اور غلام ) كے سامنے ہوں  اور اے عورتو اللہ تعالى سے ڈرتى رہو اللہ تعالى يقينا ہر چيز پر شاہد ہے ﴾الاحزاب ( 55 )

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جب اللہ تعالى نے عورتوں كو اجنبى اور غير محرم مردوں سے پردہ كا حكم ديا تو بيان كيا كہ ان قريبى رشتہ دار مردوں سے پردہ كرنا واجب نہيں، جيسا كہ سورۃ النور ميں بھى انہيں استثناء كرتے ہوئے اللہ تعالى نےفرمايا ہے:

﴿ اور وہ اپنى زينت اور بناؤ سنگھار ظاہر مت كريں  مگر اپنے خاوندوں كے ليے ﴾الخ

دوم:

چہرے كا پردہ واجب ہونے كے سنت نبويہ سے دلائل:

پہلى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

جب تم ميں سے كوئى شخص بھى كسى عورت كو شادى كا پيغام بھيجے اور اس سے منگنى كرنا چاہے تو اس كے ليے اسے ديكھنے ميں كوئى گناہ نہيں اگر وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھنا چاہتا ہو چاہے وہ عورت كى لاعلمى ميں ہى اسے ديكھ لے “

اسے احمد نے روايت كيا ہے، مجمع الزوائد كے مؤلف كہتے ہيں: اس كے رجال صحيح كے رجال ہيں.

اس سے وجہ دلالت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منگنى كرنے والے شخص سے گناہ كى نفى كى ہے خاص كر اس شرط كے ساتھ كہ وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھے جو اس كى دليل ہے كہ منگنى كے بغير ہر اجنبى عورت كو ديكھنے والا شخص ہر حالت ميں گناہ گار ہوگا اور اسى طرح جب شادى كا پيغام بھيجنے والا شخص منگنى كرنے كى غرض كے بغير ہى لڑكى كو ديكھے تو بھى اسے گناہ ہوگا مثلا كوئى شخص لذت اور فائدہ حاصل كرنے كے ليے ديكھے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: حديث ميں تو اس كا بيان ہى نہيں كہ وہ كيا چيز ديكھے ہو سكتا ہے اس سے مراد سينہ اور گلا ہو ؟

ا سكا جواب يہ ہے كہ:

ہر كوئى جانتا ہے كہ شادى كا پيغام دينے والے شخص كا مقصد خوبصورتى حاصل كرنا ہے اور سارى خوبصورى چہرے ميں ہى ہوتى ہے اور اس كے علاوہ جو كچھ ہے وہ چہرے كى خوبصورتى كے تابع ہے ا سكا غالبا قصد ہى نہيں كيا جاتا تو شادى كا پيغام دينے والا صرف عورت كے چہرہ كو ديكھےگا كيونكہ بلا شك خوبصورتى چاہنے والے كے ليے فى ذاتہ يہى مقصود ہے.

دوسرى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب عورتوں كو عيد كے ليے عيدگاہ جانے كا حكم ديا تو عورتوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك كے پاس ہو سكتا ہے پردہ كرنے كے ليے چادر اور اوڑھنى نہ ہو ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اس كى ( مسلمان ) بہن كو چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنى اوڑھا دے “

صحيح بخارى اور صحيح مسلم.

تو يہ حديث اس كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كى عورتوں ميں عادت تھى كہ وہ چادر اور اوڑھنى كے بغير باہر نہيں نكلتى تھيں، اور چادر نہ ہونے كى حالت ميں ان كے ليے باہر نكلنا ممكن نہ تھا، اور چادر اور اوڑھنى اوڑھنے كے حكم ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ پردہ كرنا لازمى ہے.

واللہ اعلم.

تيسرى دليل:

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر ادا كرتے تو آپ كے ساتھ مومن عورتيں بھى اپنى چادريں لپيٹ كر نماز ميں شامل ہوتيں اور پھر وہ اپنے گھروں كو واپس ہوتى تو اندھيرا ہونے كى بنا پر انہيں كوئى بھى نہيں پہچانتا تھا “

اور وہ كہتى ہيں:

” اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كى يہ حالت ديكھ ليتے جو ہم ديكھ رہے ہيں تو انہيں مسجدوں ميں آنے سے روك ديتے جس طرح بنى اسرائيل كى عورتوں كو روك ديا گيا تھا “

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اسى طرح روايت ہے.

اس حديث سے دو وجہ سے دلالت كى گئى ہے:

پہلى:

پردہ كرنا اور چھپ كر رہنا صحابہ كرام كى عورتوں كى عادت تھى، جو كہ سب سے بہتر لوگ ہيں اور اللہ كے ہاں لوگوں سے سب سے زيادہ عزيز ہيں.

دوسرى:

ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا، اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما عالم و فقيہ اور بصيرت كے مالك ہيں دونوں ہى يہ بتا رہے ہيں كہ اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہ كچھ ديكھ ليتے جو ہم عورتوں كى حالت ديكھ رہے ہيں ت وانہيں مسجدوں ميں آنے سے روك ديتے اور يہ اس دور كى بات ہے جو سب ادوار سے بہتر اور افضل تھا تو پھر اب ہمارے اس دور ميں كيا ؟!!

چوتھى دليل:

ابن عمر رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں “

تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:

تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” وہ ايك بالشت تك اسے ٹخنوں سے نيچے لٹكا كر ركھيں “

وہ كہنے لگيں:

” پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے “

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں اور اس سے زيادہ نہيں “

جامع ترمذى حديث نمبر ( 1731 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5336 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4117 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3580 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

تواس حديث ميں عورت كے پاؤں ڈھانپنے كے وجوب كى دليل پائى جاتى ہے اور اس كى دليل ہے كہ يہ چيز صحابہ كرام كى عورتوں ميں معلوم تھى اور پھر بلا شك و شبہ پاؤں تو چہرے اور ہاتھ سے كم فتنہ و خرابى كے باعث ہيں تو كم چيز كى تنبيہ اس سے بڑھى چيز پر تنبيہ ہےاور وہ اس كے حكم ميں اولى اور افضل ہے.

اور پھر شرعى حكمت ا سكا انكار كرتى ہے كہ كم فتنہ اور خرابى كى باعث چيز كا تو پردہ ہو، اور اسے چھپايا اور ڈھانپا جائے، اور جو اس سے فتنہ و خرابى ميں بڑى اور زيادہ ہو اسے ننگا ركھنے كى اجازت دى جائے، يہ ايك ايسا تناقض ہے جو اللہ كى حكمت و شرع كے ليے مستحيل ہے.

پانچويں دليل:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

” ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں “

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1562 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2935 ) ابن خزيمہ نے ( 4 / 203 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب ” جلباب المراۃ المسلۃ ” ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول:

” جب وہ ہمارے برابر آتے “

اس سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى مراد قافلہ سوار ہيں, اور يہ قول:

” ہم ميں سے عورتيں اپنے چہرے پر اپنى اوڑھنى لٹكا ليتى “

يہ چہرے كہ پردہ كے واجب ہونے كى دليل ہے كيونكہ احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا مشروع ہے تو اگر چہرہ ننگا ركھنے ميں كوئى قوى مانع نہ ہو تو اس وقت ننگا ركھنا باقى رہتا حتى كہ قافلہ سواروں كے گزرتے وقت بھى.

ا سكا بيان اور تفصيل يہ ہے كہ: احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا اكثر اہل علم كے ہاں واجب ہے، اس كا كوئى معارض نہيں، صرف وہى جو واجب ہے، تو اگر پردہ كرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام كى حالت ميں واجب كو ترك كرنا جائز نہ ہوتا.

صحيح بخارى اور مسلم وغيرہ ميں يہ حديث موجود ہے كہ:

” احرام كى حالت ميں عورت كو نقاب اور دستانے پہننا ممنوع ہيں “

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” يہ اس كى دليل ہے كہ نقاب اور دستانے ان عورتوں ميں معروف تھے جو احرام والى نہ تھيں، اور يہ عورتوں كے چہرے اور ہاتھ كا پردہ كرنے كا تقاضا كرتا ہے.

يہ كتاب و سنت ميں سو نو دلائل تھے:

اور دوسويں دليل يہ ہے كہ:

صحيح اعتبار اور قياس مطرح ہے، جو يہ كامل شريعت لائى ہے اور وہ مصالح اور اس كے وسائل كا اقرار ، اور ان پر ابھارنا، اور خرابيوں اور ان كے وسائل كا انكار اور اس سے منع كرنا ہے.

اور جب ہم غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے بے پردگى، اور عورت كا چہرہ ننگا ركھنے پر غور و فكر اور تامل كرتے ہيں تو ہم يہ اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں ديكھتے ہيں، اور اگر يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ اس ميں كوئى مصلحت پائى جاتى ہے، تو يہ ان خرابيوں كے مقابلہ ميں بہت ہى چھوٹى ہے.

بےپردگى كى خرابياں درج ذيل ہيں:

1 – فتنہ: اس ليے كہ عورت اپنے آپ كو ايسے فعل كے ساتھ فتنہ ميں ڈالتى ہے جو اس كے چہرہ كو خوبصورت اور بنا سنوار كر پيش كرتا ہے اور اسے پرفتن بنا كر دوسروں كے سامنے لاتا ہے، اور يہ چيز شر و برائى اور فساد كے سب سے بڑے اسباب ميں سے ہے.

2 – عورت سے شرم و حياء ہى ختم ہو جاتى ہے، جو كہ ايمان كا حصہ ہے اور پھر يہ شرم و حياء عورت كى فطرت كا تقاضا بھى تھا عورت شرم و حياء ميں ضرب المثل تھى اسى ليے كہا جاتا ہے:

اپنے پردہ ميں رہنے والى كنوارى عورت سے بھى زيادہ شرم والا “

اور عورت سے شرم و حياء كا ختم ہو جانا اس كے ايمان ميں نقص كى نشانى ہے اور جس فطرت پر وہ پيدا ہوئى ہے اس سے نكلنے كى علامت ہے.

3 – اس سے مرد بھى فتنہ كا شكار ہو جاتا ہے اور خاص كر جب عورت خوبصورت اور حسن و جمال والى ہو اور وہ ہنسى مذاق اور اٹھكيلياں بھى كرتى ہوجيسا كہ بہت سارى بےپردہ عورتيں مٹك مٹك كر چلتى اور كرتى ہيں اور پھر شيطان تو انسان ميں اس طرح سرايت كرتا ہے جس طرح جسم ميں خون ہوتا ہے.

4 – مردوں كے ساتھ عورت كا اختلاط اور ميل جول:

كيونكہ جب عورت اپنے آپ كو چہرہ ننگا ركھنے اور بےپردہ گھومنے پھرنے ميں مردوں كے برابر سمجھےگى تو اس سے شرم و حياء كہا ملے گى اور نہ ہى وہ مردوں كے ساتھ دھكم پيل كرنے ميں شرمائيگى.

اور اس چيز ميں بہت زيادہ خرابى و فتنہ ہے امام ترمذى نے حمزہ بن ابو اسيد انصارى عن ابيہ كے طريق سے حديث روايت كي ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے باپ نے بيان كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد سے نكلے تو راہ ميں مرد عورتوں كے ساتھ مل گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو فرمايا:

” تم ذرا پيچھے ہٹ جاؤ بعد ميں آنا، كيونكہ تمہيں راہ كے درميان چلنے كا حق نہيں تم راستے كى كناروں كى طرف ہو كر چلا كر، تو عورت بالكل ديوار كے ساتھ ہو كر چلتى حتى كہ ديوار كے ساتھ چپك كر چلنے كى وجہ سے اس كے كپڑے ديوار كے ساتھ اٹك جاتے “

جامع ترمذى جديث نمبر ( 5272 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح الجامع حديث نمبر ( 929 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

ماخوذ از: رسالۃ الحجاب تاليف ابن عثيمين.

ایک دلیل اور اسی آیت سے چہرے کی فرضیت کی ہے ۔ وہ یہ کہ ﷲ نے پردہ کا حکم دے کر فرمایا کہ یہ اس وجہ سے بہتر ہے کہ مرد حضرات آپ کو پہچان نہ لیں اور پہچان کر کوئی تکلیف نہ پہنچائیں. ظاہر ہے پہچان چہرے سے ہوتی ہے جسم سے ہرگز نہیں. پوری دنیا میں لوگوں کی جسامت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن کسی ایک کا چہرہ بھی دوسرے سے اس حد تک نہیں ملتا کہ کسی کو پہچان نہ رہے. اس سے بھی ثابت ہوا چہرہ چھپانے کا حکم ہے.

قرآن کی آیت ” کہ جب تم صحابیات سے کوئی چیز مانگو تو ہردے کے پیچھے سے مانگو” بعض عوام “اپنی آسانی کے لئے “کہتے ہیں کہ یہ اس آیت میں چیرے کا پردہ صرف صحابیات کے لئے ہے ۔ کیونکہ ان کا حکم عام عورتوں جیسا نہیں تھا۔ ” آئیے دیکھتے ہیں کہ عرب علماء ۔، جمہور علماء اور قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے ۔ کہ کیا واقعی یہ آیت صحابیات کے ساتھ خاص ہے اور عام عورتیں اس بات سے مستثنی ہیں ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1 قال ابن جرير الطبري رحمه الله في “تفسيره” (20/ 313) : ” يقول : وإذا سألتم أزواج رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم ، ونساء المؤمنين اللواتي لسن لكم بأزواج ، متاعًا : فاسألوهن من وراء حجاب ” انتهى . ———- ابن جریر طبری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ۔ اللہ پاک نے اس آیت میں فرمایا ۔ کہ جب تم کوئی چیز مانگو ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا مومن عورتوں سے جو تمہاری ازواج نہیں یعنی غیر محرم ہیں ۔ تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم تمام مومن عورتوں کو ہے کیونکہ کوئی بھی مومن عورت کتنی ہی نیک ہو صحابیات سے زیادہ فتنے سے مامون نہیں ہوسکتی ،۔ اور حکم بھی کن کو ہے ۔ صحابہ کو ہے۔۔۔۔ کیا آج کا مرد صحابی سے زیادہ شریف النفس ہوسکتا ہے ؟؟ جب ان کو یہ حکم ہے تو آج کے مرد اس سے مستثنی کیسے اور کیونکر؟؟؟؟؟؟؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

2 وقال القرطبي رحمه الله في “تفسيره” (14/ 227) : ” في هذه الآية دليل على أن الله تعالى أذن في مسألتهن من وراء حجاب ، في حاجة تعرض ، أو مسألة يستفتين فيها ، ويدخل في ذلك جميع النساء بالمعنى ، وبما تضمنته أصول الشريعة من أن المرأة كلها عورة ” انتهى . وقال القرطبي رحمه الله أيضا ، في تفسير قوله تعالى : ( وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ) الأحزاب/33 : ” معنى هذه الآية الأمر بلزوم البيت ، وإن كان الخطاب لنساء النبي صلى الله عليه وسلم ، فقد دخل غيرهن فيه بالمعنى ؛ هذا لو لم يرد دليل يخص جميع النساء ، كيف والشريعة طافحة بلزوم النساء بيوتهن ، والانكفاف عن الخروج منها إلا لضرورة ، على ما تقدم في غير موضع .” انتهى . من ” تفسير القرطبي” (14/179) . —————— قرطبی رحمہ اللہ ۔ اپنی تفسیر میں ان آیات سے متعلق لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں صحابیات کو مخاطب کر کے تمام عورتوں کو حکم دیا ہے ، اور اصول شریعت بھی یہی ہے ( اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی) کہ عورت تمام کی تمام چھپائے جانے کی چیز ہے ۔ اور جیسا کہ عورت کو حکم دیا۔ قرن فی بیوتکن ،۔ کہ اپنے گھروں میں رہو،اگر آیت حجاب میں عورتیں داخل نہیں تو کیا معنی ان آیات کا اور کیا فائدہ ان احکامات کا قرآن کو ساری امت ساری عورتوں کے لئے نازل ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 3 وقال الجصاص رحمه الله في “أحكام القرآن” (5/242) : ” هذا الحكم وإن نزل خاصا في النبي صلى الله عليه وسلم وأزواجه ، فالمعنى عام فيه وفي غيره ، إذ كنا مأمورين باتباعه والاقتداء به ، إلا ما خصه الله به دون أمته ” انتهى .

**امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں احکام القرآن میں یہ حکم اگرچہ صحابیات کے دور میں خاس نازل ہوا لیکن مخاطب تمام امت کی عورتیں ہیں ۔ معنا۔ کیونکہ تمام امت کے مرد اور عورتیں ۔ مامور ہیں صحابہ و صحابیات کی اتباع پر۔۔۔۔ ———————————————–

والراجح القول الثاني ، وأن الآية عامة في حق نساء النبي صلى الله عليه وسلم ، وفي حق نساء الأمة ، والأدلة على رجحان عموم الآية عدة أمور : 1. أن الأصل في خطاب الشرع العموم ، إلا إذا دل الدليل على تخصيص ذلك الخطاب . اور یہی قول راجح ہے ۔ کہ یہ حکم تمام عورتوں کے حق میں ہے نا کہ صرف صحابیات کے ساتھ خاص ہے ۔۔ اور یہاں اس بات کی کوئی دلیل بھی نہیں کہ یہ حکم صرف صحابیات کے ساتھ خاص ہے ۔ اور کسی کے حکم کے خاص ہونے کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے جو یہاں نہیں ۔

Top of Form

اپنا تبصرہ بھیجیں