دادا کے مکان سے کاروبار بڑھانے کی صورت میں تقسیم میراث

سوال: (7/31) السلام علیکم !
حضرت اگر دادا کی چھوڑی ہوئی جگہ بیچ کر بڑے بھائی نے اپنے کاروبار میں لگا دی، اور اس کاروبار سے بڑھتے بڑھتے دیگر کافی زمین/ مکان خرید لئے تو کیا اس میں باقی بھائیوں کا بھی حصہ ہوگا؟

الجواب حامداومصلیا
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں اس کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے مالک ہو جاتے ہیں، تقسیم ترکہ سے پہلے کسی وارث کو شرعا حق نہیں ہے کہ و ہ مشترکہ ترکہ میں دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر کوئی تصرف کرے، ہاں اگر دیگر ورثاء راضی ہوں، تو تصرف کر سکتا ہے ۔
لہذا صورت مذکورہ میں کاروبار بھائی کی ملکیت ہے ،تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کے حقدارکے بارے میں تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ اگر کام کرنے والے وارث نے دوسرے ورثاء کی اجازت سے ترکہ میں تصرف کیا لیکن یہ طے نہیں ہوا کہ نفع کس کا ہوگا، جیسے کہ عام طور سے ہوتا ہے کہ تمام ورثاء ساتھ رہتے ہیں اور بڑے بھائی ترکہ میں تصرف کرتے ہیں، باقی ورثاءکو معلوم ہوتا ہے لیکن وہ منع نہیں کرتےتو یہ ان کی طرف سے کاروبار کرنے کی دلالۃً اجازت ہے،اس صورت میں عمل کرنے والا وارث اجرت مثل کا مستحق ہے بقیہ تمام نفع تمام ورثا جس میں بڑا بھائی بھی شامل ہوگا کے درمیان ان کے حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔ خصوصا جبکہ بڑے بھائی کی نیت بھی یہ تھی کہ وہ تبر عاعمل نہیں کر رہا، اور یہ بات زیادہ قرین انصاف بھی معلوم ہوتی ہے کہ عمل کرنے والے کی محنت بھی اکارت نہیں گئی اور سرمایہ کے مالک کو اس کے سرمایہ کا نفع بھی مل گیا اور آج کل معروف یہی ہے کہ کوئی شخص تبرعا کام نہیں کرتا۔
۲۔ اگر ورثاء کی اجازت سےتجارت کی ہواور ورثاء سے صراحتا کوئی معاملہ طے ہوجائے، تو طے شدہ معاملہ کے مطابق حکم ہوگا۔
۳۔ اگر ورثاء کی اجازت کے بغیر تجارت کی تواس کا مالک کام کرنے والا وارث ہوگا،البتہ اس سے حاصل ہونے والا نفع حلال نہ ہوگا ،بلکہ یہ نفع واجب التصدق ہوگا ،ہاں اس وارث کےاپنے حصے میں جتنا نفع ہوا وہ اس کے لئے حلال ہے،لیکن چونکہ مالک معلوم ہیں تو دیگر ورثاء کا نفع صدقہ کرنے کے بجائے ورثاء کو دیدے تو اس کا ذمہ ساقط ہوجائے گا،
اور اس صورت میں کام کرنے والا وارث دیانۃ کسی قسم کی اجرت کا مستحق نہیں ہوگا،لیکن اگر کام کرنے والے کی نیت یہ ہو کہ میں تبرعا کام نہیں کررہا اور کرتا ،اور عرفا وہ کام بلا اجرت نہیں کیا جاتا تو وہ اجرت کا مستحق ہوگا۔
الدر المختار (4 / 325):
وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ۔
الدر المختار (6 / 42):
وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 307)
وَمَا اشْتَرَاهُ أَحَدُهُمْ لِنَفْسِهِ يَكُونُ لَهُ وَيَضْمَنُ حِصَّةَ شُرَكَائِهِ مِنْ ثَمَنِهِ إذَا دَفَعَهُ مِنْ الْمَالِ الْمُشْتَرَكِ، وَكُلُّ مَا اسْتَدَانَهُ أَحَدُهُمْ يُطَالَبُ بِهِ وَحْدَهُ.
الفتاوى الهندية (2/ 346)
لَوْ تَصَرَّفَ أَحَدُ الْوَرَثَةِ فِي التَّرِكَةِ الْمُشْتَرَكَةِ وَرَبِحَ فَالرِّبْحُ لِلْمُتَصَرِّفِ وَحْدَهُ، كَذَا فِي الْفَتَاوَى الْغِيَاثِيَّةِ.
مجمع الضمانات (1 / 130):
ولو استعمل المغصوب بأن كان عبدا فأجره فالأجرة له، ولا تطيب له فيتصدق بها.وكذا لو ربح بدراهم الغصب كان الربح له، ويتصدق به، ولو دفع الغلة إلى المالك حل للمالك تناولها كما في الهداية.
(شرح المجلة، المادة:1090، ج:4، ص: 29۔ 30)
إذا أخذ أحد الورثة مبلغاً من الدراهم من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين و عمل فيه و خسر فتكون الخسارة عائدة إليه كما أنه إذا ربح فلا يسوغ لبقية الورثة طلب حصة منه) لأنه إما غاصب أو مستودع، وكل استريح فيما في يده لنفسه، يكون ربحه له لا للمالك، لكن يملكه ملكا خبيثا سبيله التصدق على الفقراء.
اسلام اورجدید معاشی مسائل:(4/85)
متاخرین حنیفہ کا قول:
لیکن متاخرین حنفیہ میں سے علامہ رافعی نے یہ فرمایا کہ چونکہ خبث صاحب مال کے حق کی وجہ سے آیا ہے لہذا اگر وہ صدقہ کرنے کے بجائے صاحب مال کو دیدے تب بھی صحیح ہو جائے گا، چنانچہ وراثت والے مسئلہ میں اگر ایک وارث متصرف ہو گیا جبکہ حق سارے ورثاء کا تھا تو اس میں اصل حکم تو یہ ہے کہ جو کچھ ربح حاصل ہوا وہ تصدق کرے،
لیکن اگر تصدق نہ کرے بلکہ ورثاء کو دیدے تو اس کا ذمہ ساقط ہو جائے گا بلکہ یہ زیادہ مناسب ہے تا کہ اس سے تمام ورثاء فائدہ اٹھا لیں ۔
فتاوی قاسمیہ جلد 20 ، صفحہ نمبر: 128
جس نے تقسیم میراث سے پہلے رقم یا سرمایہ لیا ہے، اس نے دیگر ورثاء سے کسی قسم کی اجازت اور رضامندی حاصل نہیں کی ہے، اس کے بغیر اس نے یہ سلسلہ شروع کردیا ہے، اس کے بعد اس نے اس سرمایہ کے ذریعہ سے اپنا کاروبار الگ سے شروع کردیا ہے، تو ایسی صورت میں اس کاروبار میں اگر کوئی نقصان اور خسارہ ہوتا ہے، تو وہ خود اس کا ذمہ دار بنے گا اور دیگر ورثاء کے حصوں کا ضامن بنے گا، اسی طرح اس کے کاروبار میں اگر کوئی نفع ہوا ہے تو وہ منافع بھی اسی کی ملکیت میں داخل ہوگا اور اس منافع میں دیگر ورثاء کا کوئی حق نہ ہوگا، نیز اگر اس نے سرمایہ لے کر اپنے نام سے کوئی جائیداد خرید لی ہے، تو وہ جائیداد بھی اس کی ملکیت ہوگی اور اس کے نفع نقصان کا تعلق اسی کی ذات کے ساتھ ہوگا، دیگر ورثاء کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا ۔
دار الافتاء :جامعہ دار العلوم کراچی،۲/۱۰۷۲
مشترک ترکہ میں ہر شخص دوسرے کے حصے میں اجنبی ہے، اور دوسرے کے حصے میں بلا اذن تصرف غصب ہے ۔اسلئے دوسروں کے حصے کا نفع اس کے لئے حلال نہیں ۔ ہاں اگر اس وارث نے دوسروں کی اجازت سے تصرف کیا ہو تو اس کی تفصیل پہلے گزر گئی۔
سوال میں ذکر کردہ تیسری عبارت میں شرکت فاسدہ کا ذکر ہے ۔ شرکت میں با قاعدہ عقد ہوتا ہے، جبکہ مشترکہ ترکہ میں اگر تصرف بلا اذن (صراحۃ یا دلالۃ ) ہو تو یہ غصب ہے، اس میں کوئی عقد نہیں ہوتا ، اور اجرت کا استحقاق عقد کی بناء پر ہوتا ہے ۔ جب عقد ہی نہیں ہوا تو اجرت کا استحقاق بھی نہیں ہوگا ۔ اسلئے اگر قفیز الطحان کو اپنے مورد پر بند ہی رکھا جائے تو پھر بھی یہاں اجرت کا استحقاق نہیں کیونکہ یہاں عدم وجوب اجرت کی دوسری بنیاد موجود ہے اور وہ عدم عقد ہے۔
اور عبارت نمبر ۴میں وہی بات کہی گئی ہے جس کو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اگر عقد کے بغیر کام کیا جائے تو اجارہ کے عام اصول کے تحت وہ کسی اجرت کا مستحق نہیں ، کیونکہ اجرت کا استحقاق عقد کی بناء پر ہوتا ہے۔لیکن اگر کام کرنے والے کی نیت یہ ہو کہ میں تبرعا کام نہیں کرنا اور عر فاوہ کام بلا اجرت نہیں کیا جاتا تو وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔

اس جزئیہ میں عرف سے تعرض نہیں کیا گیا ہے اسلئے صرف دیا نہ اجرت دینے کا ذکر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں