يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ (سورہ مائدہ: آیت6)
اشکال: یہ مدنی آیت ہے جب کہ نماز مکہ میں فرض ہوئی تھی تو کیا اس آیت کے نزول سے پہلے نماز بغیر وضو پڑھی جاتی تھی؟
جوابات:
1۔تمام اہلِ سیر کا اس بات پر اجماع ہے کہ تعلیم ِ جبرئیل کے ذریعے وضو اور غسل پہلے ہی فرض ہوگئے تھے۔
2۔شرائع ماقبل میں بھی اس کا حکم تھا۔ چونکہ پہلی امتوں کے جس حکم پر اللہ اور رسول نے نکیر نہیں فرمائی وہ امتِ محمدیہ کے لیے بھی حجت ہیں۔
ا شکال: جب حکم پہلے سے موجود تھا تو آیت کے دوبارہ نزول کا فائدہ؟
جواب: بہت سے فائدے ہیں ایک تو یہ تاکیداً لائےہیں ،پہلے سے جاری حکم کو پختہ کرنے کے لیے۔دوسرااس آیت کو علماء نے اپنے اجتہاد کا میدان بنا کر تقریباً 73 سے زائد مسائل مستنبط کیے ہیں، جو بہت بڑاعلمی فائدہ ہے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی نکات ہیں۔مثلا:
1۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا میں غائب کاصیغہ لائے ہیں مخاطب کانہیں تاکہ صحابہ کے ساتھ ساتھ یہ حکم یوم القیامہ تک کے لیےتمام مسلمانوں کو عام ہوجائے ۔
2۔وضومیں اذا تحقیقیہ لائے جبکہ جنابت میں ان تشکیکیہ ،اس سے اشارہ کیا کہ وضو امورِلازمہ میں سے ہے حدثِ اصغر پیش آتا ہی آتاہے جبکہ جنابت کبھی کبھارپیش آتی ہے۔
3۔ اللہ سبحانہ تعالی نے جب وضو کا ذکر فرمایا تو کسی قسم کے حدث کا ذکر نہیں فرمایا لیکن جنابت اور تیمم کےساتھ حدث کا ذکر فرمایا ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ یہ بات واضح ہوجائے کہ وضو سنت بھی ہے (کہ حدث نا بھی ہو تب بھی جائز ) اور کبھی فرض بھی ہوتا ہے جب کہ غسل یا تیمم کے لیے حدث شرط ہے ، بغیر حدث غسل علی الغسل عبث ہے۔اس کے علاوہ مزید نکات یہ ہیں:
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 91)
وَعَلَى ثَمَانِيَةِ أُمُورٍ كُلُّهَا مُثَنَّى طَهَارَتَيْنِ: الْوُضُوءُ وَالْغُسْلُ وَمُطَهِّرَيْنِ: الْمَاءُ وَالصَّعِيدُ، وَحُكْمَيْنِ: الْغَسْلُ وَالْمَسْحُ، وَمُوجِبَيْنِ: الْحَدَثُ وَالْجَنَابَةُ، وَمُبِيحَيْنِ: الْمَرَضُ وَالسَّفَرُ وَدَلِيلَيْنِ: التَّفْصِيلِيُّ فِي الْوُضُوءِ وَالْإِجْمَالِيُّ فِي الْغُسْلِ، وَكِنَايَتَيْنِ: الْغَائِطُ وَالْمُلَامَسَةُ، وَكَرَامَتَيْنِ: تَطْهِيرُ الذُّنُوبِ وَإِتْمَامُ النِّعْمَةِ أَيْ بِمَوْتِهِ شَهِيدًا، لِحَدِيثِ «مَنْ دَاوَمَ عَلَى الْوُضُوءِ مَاتَ شَهِيدًا» ذَكَرَهُ فِي الْجَوْهَرَةِ.