دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا

سوال:دو نمازوں کو بلا عذر ایک وقت میں پڑھنا کیسا ہے؟

جواب: قرآن کریم کی آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقت مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے،اور ان میں تقدیم وتاخیر جائز نہیں۔

چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

“إنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ علَى المُؤْمِنيْنَ كِتَاباً مَوْقُوْتاً” (النساء:103)

ترجمہ:” بے شک نماز مسلمانوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے”۔

نیز شریعت میں ہرنماز کی ابتدا اور انتہا کا وقت مقرر ہے،البتہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اورعرفہ میں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کو جمع کرنا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے،اس کے علاوہ کسی موقع پر بغیر کسی عذر کے نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ،یا وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں،تاہم جن احادیث میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا بظاہر معلوم ہوتا ہے ان میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دو نمازوں کو جمع کرنا صورتاً تھا حقیقتاً نہیں،ضرورت کے موقع پر صورتاً دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، مثلاً: ظہر کی نماز کو مؤخرکر کے آخری وقت میں پڑھ لیا جائے اور عصر کو ابتدائی وقت میں،اسی طرح مغرب کو مؤخر کر کے آخری وقت میں ادا کر لیا جائے اور عشاء کو اول وقت میں۔یہ صورتاً جمع ہے ،سفر میں اس کی گنجائش ہے۔

=====================

حوالہ جات:

1…من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى باباً من أبواب الكبائر.

(سنن الترمذي،باب ما جاء فى الجمع بين الصلاتين فى الحضر:188)

ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

2…”عن ابن عباس رضي اللّه عنه أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم صلى بالمدينة سبعاً وثمانياً الظهر والعصر والمغرب والعشاء “

فقال ايوب :لعله في ليلة مطيرة وقال جابر: عسى ذالك يكون في الليلة المطيرة واختلف فى الجمع بعذر أجازه جماعة من السلف وهو قول مالك والشافعي وأحمد وأوّله الحنفية على الجمع الصوري.

ترجمہ:”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہتے ہوئے سات رکعتیں اور آٹھ رکعتیں نماز پڑھیں۔ایوب سختیانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جابر بن زید رحمہ اللّٰہ سے کہا!شاید بارش کی رات میں ایسا کیا ہوگا؟جابر رحمہ اللّٰہ نے کہا ہو سکتا ہے”.

(صحيح البخاری :باب تاخیر الظہر الی العصر:77/1)

امام بخاری رحمہ اللّٰہ نے ترجمة الباب سے صورت متعین کر دی کہ ظہر کی تاخیر عصر تک ہے یعنی ظہر کی نماز کو ظہر کے آخری وقت تک مؤخر فرما دیا اور عصر کو اول وقت میں پڑھ کر جمع صوری فرمائی۔

امام اعظم ابو حنیفہ ،حسن بصری اور ابراہیم نخعی رحمھم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ جمع بین الصلاتین حقیقی صرف ایام حج میں عرفات اور مزدلفہ میں مشروع ہے اس کے علاوہ کہیں بھی جائز نہیں،البتہ جمع صوری جائز ہے۔

(نصر الباری:141/3)

3…وما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً أي:فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوّز،كقوله تعالى:”فإذا بلغن أجلهن”أي قاربن بلوغ الأجل أو علي أنه ظن ذالك،ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر:”أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق،ثم قال: إن رسول اللّه صلى اللّٰه عليه وسلم كان إذا عجّل به السير صنع هكذا”.

(حاشية ابن عابدين:56/2)

4…مفتی خیر محمد جالندھری رحمہ اللّٰہ نے خیر الفتاوی میں تحریر فرمایا کہ جمع بین الصلاتین کی دو قسمیں ہیں ۔1.جمع حقیقی کہ مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لی جائے۔

2.جمع صوری کہ مغرب آخری وقت اور عشاء اول وقت میں پڑھی جائے۔حنفیہ کے نزدیک بوقت عذر جمع صوری کی اجازت ہے،جمع حقیقی درست نہیں ہے۔حنفیہ کا استدلال قرآن پاک سے بھی اور احادیث سے بھی۔

(خیر الفتاوی:192/2)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

16 دسمبر 2021ء

10 جمادی الثانی 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں