دوران نماز وضو کا ٹوٹنا

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۴۴﴾

سوال:–        ایک شخص کا دوران نماز وضو ٹوٹ گیا اب کوئی ایسی صورت ہے کہ وہ جلدی سے وضو کرکے بقیہ نماز مکمل کرلے؟

جواب :-       جی ہاں ! اگر کسی شخص کا وضو نماز کے دوران ٹوٹ جائے اور کسی ایسے سبب سے ٹوٹے  جو نادر نہ  ہو  مثلاً خون یا گیس وغیرہ خارج ہونے سے ٹوٹے ،بے ہوشی ،دیوانگی یا قہقہے وغیرہ نادر اسباب سے نہ ٹوٹے تو وضو  کر کے بقیہ نماز پوری کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ وضو ٹوٹنے کے فوراً بعد وضو کرنے چلا جائے ،اس حالت میں کوئی رکن وغیرہ اد ا نہ کرے  اور اس دوران بات وغیرہ نہ کرے۔اس عمل کو بنا ء کہتے ہیں ۔تاہم از سرِ نو دوبارہ نماز شروع سے  پڑھنا بناء سے بہتر ہے۔

عن عائشہ رضی اللہ عنھا عن النبی ﷺ قال:من قاء او رعف او امذی فی صلاتہ فلینصرف و لیتوضا و لیبن علی صلاتہ ما لم یتکلم۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی شخص کو قے یا نکسیر یا مذی نماز میں خارج ہو جائے تو جا کر وضو کرلے اور اپنی بقیہ نماز مکمل کرلے جب تک کہ کسی سے بات نہ کی ہو۔(رواہ ابن ماجہ)

الفتاوى الهندية – (1 / 93)

(منها) أن يكون الحدث موجبا للوضوء ولا يندر وجوده وأن يكون سماويا لا اختيار للعبد فيه ولا في سببه. هكذا في البحر الرائق.

فإذا أحدث في الصلاة من بول أو غائط أو ريح أو رعاف متعمدا فسدت صلاته ولا يبني وإن لم يتعمد فإن كان الحدث موجبا للغسل فكذلك وإن كان موجبا للوضوء فإن كان بفعل الآدمي فكذلك خلافا لأبي يوسف – رحمه الله تعالى -. كذا في الخلاصة.

الفتاوى الهندية – (1 / 94)

(ومنها) أن ينصرف من ساعته حتى لو أدى ركنا مع الحدث أو مكث مكانه قدر ما يؤدي ركنا فسدت صلاته ولو قرأ ذاهبا تفسد صلاته

وآيبا لا وقيل بالعكس والصحيح الفساد فيهما والتسبيح والتهليل لا يمنع البناء في الأصح. كذا في التبيين……. (ومنها) أن لا يفعل بعد الحدث فعلا منافيا للصلاة لو لم يكن أحدث إلا ما لا بد منه أو كان من ضرورات ما لا بد منه أو من توابعه وتتماته حتى إذا سبقه الحدث ثم تكلم أو أحدث متعمدا أو قهقه أو أكل أو شرب أو نحو ذلك لا يجوز له البناء وكذا إذا جن أو أغمي عليه أو أجنب. هكذا في البدائع أو نظر إلى فرج امرأة فأمنى. هكذا في شرح الطحاوي……… (ومنها) أن لا يظهر حدثه السابق بعد الحدث السماوي.

فقط والله تعالیٰ اعلم

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں