دورانِ تراویح حافظہ کا حافظ کو لقمہ دینا

سوال: کیا حافظ لڑکی حافظ لڑکے کو تراویح میں لقمہ دے سکتی ہے؟

الجواب باسم ملھم بالصواب

واضح رہے کہ اگر امام سے کوئی غلطی آجائے تو اس پر امام کو متوجہ کرنے کے لیے شریعت نے عورت کو جو طریقہ بتایا ہے وہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت پر مار کر متوجہ کیا جائے،لہذا حافظہ لڑکی اسی پر عمل کرے۔البتہ اگر حافظہ لڑکی نے زبان سے لقمہ دے دیا اور امام نے لے لیا تو نماز میں فساد نہیں آئے گا، تاہم امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ بھولنے کی صورت میں لقمہ دینے سے پہلے ہی رکوع کرلے۔

*نوٹ*: عورت کے لیے نماز اور تراویح کی ادائیگی کے لیے مسجد جانا مکروہ ہے۔ البتہ اگر گھر میں انتظام ہوتو پڑھ سکتی۔

=====================

حوالہ جات:

1- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏”‏ التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ وَ التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ.‏”‏‏‏‏‏‏

(صحيح البخاري: 1203)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تالی بجانا عورتوں کیلئے ہے اور سبحان اللہ کہنا مردوں کیلئے ہے۔

2- الأشبہ أن صوتہا لیس بعورة وإنما یؤدّی إلی الفتنة کما علل بہ صاحب الھدایة وغیرہ فی مسألة التلبیہ، ولعلھن إنما منعن من رفع الصوت بالتسبیح فی الصلاة لھذا المعنی، ولا یلزم من حرمة رفع صوتہا بحضرة الأجانب أن یکون عورة کما قدمناہ.

(البحر الرائق: 471/1)

3- و صوتہا معطوف علی المستثنی یعنی: أنہ لیس بعورة ح. قولہ علی الراجح عبارة البحر عن الحلیة أنہ الأشبہ. وفی النھر: وھو الذی ینبغی اعتمادہ. ومقابلہ ما فی النوازل: نغمة المرأة عورة… فلا یحسن أن یسمعہا الرجل اھ. وفی الکافی: ولا تلبی جھراً؛ لأن صوتہا عورة.

(رد المحتار علی الدر المختار: 96,97/2)

4- بعض مساجد میں عورتوں کے لیے بھی تراویح کا انتظام ہوتا ہے، مگر امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک عورتوں کامسجد میں جانا مکروہ ہے، ان کا اپنے گھر پر نماز پڑھنا مسجد میں قرآن مجید سننے کی نسبت افضل ہے۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل: 198/4)

واللہ أعلم بالصواب

18 شعبان 1443ھ

21 مارچ 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں