دوستیں مل کر کھانا آرڈر کریں مگر ایک نہ کھائے تو اس کا حکم

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.
سوال: یونیورسٹی میں ہم چار دوستیں ہیں ۔ہم لنچ مل کر کرتی ہیں ۔ہم چاروں پیسے ملا کر کوئی آرڈر کر لیتے ہیں ۔لیکن کوئی زیادہ کھاتی ہے کوئی کم ۔یا کبھی کسی کو کھانا پسند نہیں آتا تو وہ نہیں کھاتی لیکن پیسے کوئی بھی اسے واپس نہیں کرتی ۔۔کیا اس طرح کرنا درست ہے ۔زیادہ کھانے والی کو گناہ تو نہیں ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
اس طرح سے پیسے ملا کر کوئی چیز مل کر منگوانے سے سارے شریکوں کا اس میں برابر حصہ ہوتا ہے۔ لہذا جو سہیلی کھانا نہ کھائے اس کو اختیار ہے کہ چاہے تو اپنی رقم کے تناسب سے کھانا وصول کر کے گھر لے جائے۔ لیکن اگر وہ اپنی دلی رضامندی سے اپنے حصے کا کھانا اپنی سہیلیوں کے لیے چھوڑ دے تو ان کے لیے یہ کھانا کھانا جائز ہوتا ہےاور اس صورت میں ان کو پیسے واپس کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ نیز اگر کوئی سہیلی زیادہ کھا لیتی ہے دیگر سہیلیوں کی رضامندی سے تو اس سے وہ شرعا گناہگار نہ ہوگی۔ تاہم مشترکہ کھانے کے آداب میں ہے کہ برابر کھایا جائے دوسروں سے زیادہ نہ کھایا جائے۔
حوالہ جات:
کتب فتاوی سے:
1۔المبسوط للسرخسی (151/11):
”(ثُمَّ) الشَّرِكَةُ نَوْعَانِ: شَرِكَةُ الْمِلْكِ وَشَرِكَةُ الْعَقْدِ. (فَشَرِكَةُ الْمِلْكِ) أَنْ يَشْتَرِكَ رَجُلَانِ فِي مِلْكِ مَالٍ، وَذَلِكَ نَوْعَانِ: ثَابِتٌ بِغَيْرِ فِعْلِهِمَا كَالْمِيرَاثِ، وَثَابِتٌ بِفِعْلِهِمَا، وَذَلِكَ بِقَبُولِ الشِّرَاءِ، أَوْ الصَّدَقَةِ أَوْ الْوَصِيَّةِ. وَالْحُكْمُ وَاحِدٌ، وَهُوَ أَنَّ مَا يَتَوَلَّدُ مِنْ الزِّيَادَةِ يَكُونُ مُشْتَرَكًا بَيْنَهُمَا بِقَدْرِ الْمِلْكِ، وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْأَجْنَبِيِّ فِي التَّصَرُّفِ فِي نَصِيبِ صَاحِبِهِ.“
(المبسوط للسرخسی:151/11)
واللہ سبحانہ اعلم
17 صفر 1444ھ
14 ستمبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں