ڈیوٹی ٹائم میں عبادت کے لیے کتنا وقت لگا سکتا ہے

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: میں کسی ادارے کا ملازم ہوں۔ میرے فرائض کا دورانیہ صبح8بجے سے شام 5تک ہے۔الحمد للہ! میرا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے اور میں جہاں بھی ہوں، جماعت کی ترتیب اور اعمال کی پابندی کرتا ہوں۔ میرے دفتر کے ساتھ جو مسجد ہے وہاں کے مولوی صاحب فرمارہے تھے کہ ’’ ڈیوٹی ٹائم میں اگر ادارے کی طرف سے اجازت نہ ہوتو فرض اور سنتیں پڑھ کر واپس آفس جایا جائے، نفل بھی نہ پڑھے جائیں، جبکہ میں تو اپنے افسروں کے منع کرنے

کے باوجود بھی تسلی سے تعلیم میں شریک ہوتا ہوںاور کبھی کبھار مشورے سے میں بھی تعلیم کرتاہوں۔ نیز مولوی صاحب فرمارہے تھے کہ جتنا وقت فرائض اور سنتوں سے زائد لگایا ہو تو ادارے کو اسی وقت کے اعتبار سے رقم لوٹانا لازم ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے:

(1)کیا مولوی صاحب کی بات درست ہے؟

(2)اگر درست ہے تو جو رقم تنخواہ میں سے بقول مولوی صاحب کے واپس کرنی ہے اگر میں نہ کروں تو کیا اس کی گنجائش بنتی ہے؟

(3)سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں کس کی اجازت معتبر ہوگی؟ تعلیم میں شرکت کے لیے بھی رہنمائی فرمائیں۔(سائل: مسلم خان،ماڑی پور، کراچی)

فتویٰ نمبر:191

 جواب:

(1)مولوی صاحب کی بات درست ہے یہ اوقات آپ نے ایک معاہدے کے تحت اپنی کمپنی کو بیچ دیے ہیں۔ جس طرح دوسروں کا مال ان کی اجازت کے بغیر صدقہ کرانا حرام ہے بالکل اسی طرح دوسروں کا وقت بلا اجازت کسی ’’نیکی ‘‘ میں لگانا بھی جائز نہیں۔ ڈیوٹی کے اس متعین وقت میں اگر مالک کی طرف سے اجازت نہ ہو تو فرائض اور سنن مؤکدہ کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنا جائز نہیں نوافل پڑھنا یا تعلیم وغیرہ میں شامل ہونا بالاتفاق ناجائز ہے۔
(2)ڈیوٹی کا جو وقت فرائض و سنن کے علاوہ دوسرے کاموں میں صرف ہو اس کی بقدر تنخواہ کی رقم ادارے میں جمع کرانا لازم ہے اگر ادارے کو واپس نہ کریں گے تو اس قدر رقم آپ کے لیے ناجائز ہوگی۔
(3)سرکاری ادارے میں اگر قانوناً اجازت ہے تو وہ شرعاً اجازت شمار ہوگی۔ اس کے علاوہ محض افسران بالا جو قانوناً اس کے مجاز نہ ہوں ان کی اجازت شرعی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے کہ سرکاری ادارے قوم کے ادارے ہیں اور ان کی rاجازت قانونی کی شکل میں ہی معتبر ہے کسی افسر کی ذاتی اجازت معتبر نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری اداروں میں مالکان کی یا ایسے افسران کہ جنہیں مالکان نے کلی اختیارات دے رکھے ہوتے ہیں ان کی اجازت معتبر ہوگی۔
(احسن الفتاویٰ: 301،300/7)
(رد المحتار: 24/337)

اپنا تبصرہ بھیجیں