فارغ ہو کہنے کے بعد دو صریح طلاق دے دی جائیں تو طلاق واقع ہونے کا کیا حکم ہے؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته!

شوہر بیوی کو کہے میری طرف سے تم فارغ ہو پھر ایک گھنٹے بعد جبکہ وہ لڑائی جاری تھی دو صریح طلاق دیدے ان الفاظ کے ساتھ میں طلاق دیتا ہوں طلاق اور پھر ماں منہ پر ہاتھ رکھ دے تو اسکا کیا حکم ہے۔اور پردہ کرنا لازم ہے؟

تنقیح :فارغ ہونے کا کہتے وقت شوہر کی کیا نیت تھی ؟
جواب تنقیح:یہ کہتے وقت شوہر کی طلاق دینے کی نہ تھی۔

الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

صورت مسئولہ میں چونکہ ”میری طرف سے فارغ ہو“کا جملہ غصے میں کہا ہے،اس جملے سے غصے میں بغیر نیت کے بھی طلاق ہو جاتی ہے، لہذا غصے میں مذکورہ جملہ کہنے سے ایک طلاق بائن واقع ہو گئی تھی ، اس کے بعد جب مزید دو صریح طلاقیں دیں تو اب مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقىیں واقع ہو گئی ہیں اب نکاح کا رشتہ ختم ہو گیا اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دونوں ساتھ بھی نہیں رہ سکتے ہیں ۔حلالہ شرعی یہ ہے کہ عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کے بعد ازواجی تعلق قائم کر لے پھر وہ شوہر اپنی خوشی سے طلاق دے تو پھر وہ عدت گزار کر اپنےپہلے شوہر کے ساتھ نکاح کر لے۔

حوالہ جات
في الشامیة:
1۔ ”مَطْلَبٌ الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ وَالْبَائِنَ
(قَوْلُهُ: الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ) كَمَا لَوْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ، أَوْ طَلَّقَهَا عَلَى مَالِ وَقَعَ الثَّانِي، بَحْرٌ، فَلَا فَرْقَ فِي الصَّرِيحِ الثَّانِي بَيْنَ كَوْنِ الْوَاقِعِ بِهِ رَجْعِيًّا أَوْ بَائِنًا (قَوْلُهُ: وَيَلْحَقُ الْبَائِنَ) كَمَا لَوْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ، أَوْ خَلَعَهَا عَلَى مَال، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ أَوْ هَذِهِ طَالِقٌ، بَحْرٌ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ، ثُمَّ قَالَ: وَإِذَا لَحِقَ الصَّرِيحُ الْبَائِنَ كَانَ بَائِنًا؛ لِأَنَّ الْبَيْنُونَةَ السَّابِقَةَ عَلَيْهِ تَمْنَعُ الرَّجْعَةَ، كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَقَالَ أَيْضًا: قَيَّدْنَا الصَّرِيحَ اللَّاحِقَ لِلْبَائِنِ بِكَوْنِهِ خَاطَبَهَا بِهِ وَأَشَارَ إلَيْهَا لِلِاحْتِرَازِ عَمَّا إذَا قَالَ: كُلُّ امْرَأَةٍ لَهُ طَالِقٌ، فَإِنَّهُ لَايَقَعُ عَلَى الْمُخْتَلِعَةِ إلَخْ وَسَيَذْكُرُهُ الشَّارِحُ فِي قَوْلِهِ: وَيُسْتَثْنَى مَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ إلَخْ وَيَأْتِي الْكَلَامُ فِيهِ (قَوْلُهُ: بِشَرْطِ الْعِدَّةِ) هَذَا الشَّرْطُ لَا بُدَّ مِنْهُ فِي جَمِيعِ صُوَرِ اللِّحَاقِ، فَالْأَوْلَى تَأْخِيرُهُ عَنْهَا. اه۔“ [الرد مع الدر :306/3]
2-’’ومایصلح جواباً وشتماً خلیة ،بریة، بتة،بتلة، بائن حرام  ۔۔ففي حالة الرضاء لایقع في الألفاظ کلها إلا بالنیة‘‘۔ ( فتاوی الھندیہ :ج: 1، ص: 374,375)

3-”تم فارغ ہو“ تو اسے بہ نیت طلاق یا بہ وقت مذاکرہٴ طلاق کہا جائے تو اس سے طلاقِ بائن پڑتی ہے؛ (خیر الفتاوی 5/209)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
8صفر 1444ھ
5ستمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں