“فتح سے تعمیر تک”

 اسلام کا آفتاب عالم تاب جب طلوع ہوا تو “حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم””رجب2ھ٫ تک 16 یا17 ماہ تک اس مقام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے اس لئے یہ مسلمانوں کا “قبلہء اول” اور “ثالث الحرمین” کہلاتا ہے- واضح رہے کہ “مسجد اقصیٰ” کا مصداق وہ سارا “حرم قدسی”ہے جس کے گرد ایک فصیل قائم ہے جس کے گرد ایک فصیل قائم ہے اور اس میں مختلف عمارات ہیں اور “قبلہء اول اس میں موجود “وہ چٹان” جس پر”زرد رنگ کا” گنبد “”گنبد صخرہ”قائم ہے-

“خلیفہء دوم حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کیا تو اس وقت کے یہاں کے عیسائی حکمرانوں اور پادریوں کی بے توجہی اور بے ادبی کی وجہ سے یہ ساری جگہ ویران تھی اور “مقدس چٹان”پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا-“حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” نےاس کی صفائ کا حکم دیا اور خود بھی “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے ساتھ مل کر صفائی کی-

“مسند احمد”کی صحیح روایت میں ہے کہ”آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے “حضرت کعب احبار رضی اللّٰہ عنہ”سے پوچھا کہ “کہاں نماز پڑھوں”؟

انھوں نے فرمایا”آپ رضی اللّٰہ عنہ” میرا مشورہ سنتے ہی۔ تو اس چٹان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں تاکہ سارا القدس آپ رضی اللّٰہ عنہ کے سامنے ہو””حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا”کہ یہ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے یہودیوں سے ملتی جلتی بات کی ہے- میں تو وہاں نماز پڑھوں گا جہاں ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” نے نماز پڑھی تھی- چناںچہ “آپ رضی اللّٰہ عنہ” حرم کے قبلے والی جانب گئےاور براق باندھنے کی جگہ کے قریب فاتحین” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے ساتھ نماز پڑھی-پھر “آپ رضی اللّٰہ عنہ”نے یہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا- یہ مسجد کھجوروں کے تنوں اور پتوں سے تعمیر کی گئی تھی-

اموی دور خلافت میں جب مرکز خلافت شام میں تھا تو بیت المقدس کو خاص اہمیت حاصل تھی اور اموی خلیفہ” ولید بن عبد الملک نے مسجد اقصیٰ کی نئ تعمیر کی- یہ تعمیر “حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” کے تعمیر کردہ مقام پر تھی اور انکی مسجد اس نئ مسجد کے اندر آگئ ہے-

مورخین کا کہنا ہے کہ جس طرح بیت المقدس کی فتح “حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” کا کارنامہ ہے اسی طرح اسکی شاندار تعمیر کا اعزاز”اموی خلفاء” کوحاصل ہے-

حدود حرم میں واقع مسجد کے ہال کا طول”600″گزاور عرض”700″گزہے-اس ہال اور برآمدہ کی تعمیر نہایت خوبصورت اور دلکش اور شاندار ہے-چھت جن ستونوں پر کھڑی ہےیہ اعلیٰ قسم کے سنگ مرمر کے ہیں اوران کے درمیان کی محرابوں اور مسجد کے گنبد کے اندرونی حصے پر نہایت عمدہ نقش و نگار اور طلائی کام کیاگیا ہے-مسجد کے گرد مظبوط فصیل ہے-مؤ رخین کا اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ کی روز اول سے جو حدود تھیں آج بھی وہ انہی حدود پر قائم ہے-مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے قطعے پر ہوتا ہے جس کے گرد یہ فصیل موجود ہے-

فصیل میں سے اندر داخل ہونے کے” 14 “دروازے ہیں-ان میں سے “10”دروازے آج بھی زیرِ استعمال ہیں جبکہ 4 دروازے” سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللّٰہ” نے حفاظتی اقدامات کے تحت بند کروادئے تھے- مسجد کے آخر میں کشادہ برآمدہ ہے جس کے 7 دروازے ہیں اور اس کے آگے وسیع صحن ہے-اس صحن میں چھوٹی چھوٹی عمارات ہیں-جنمیں یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے قبے٫چبوترے٫اذان کے مینارے٫ پانی کی سبیلیں٫ کنویں٫مدرسے اور محرابی دروازے ہیں-ان عمارتوں میں سب سے بڑی اور نمایاں عمارت”چٹان والے گنبد” کی عمارت ہے-(جسکا تفصیلی تعارف آگے آئے گا)

افسوس کہ ہم آج ہم اپنی ان مقدس تاریخی مقامات کی دید سے محروم ہیں-اس صحن میں جمعہ و عیدین کے روح پرور اجتماعات ہوتےتھے اور ان نمازوں کی ادائیگی کے دوران یہودی اپنے لئے نہایت رسوائی محسوس کرتے تھے-لہذا وہ کبھی آگ لگا کر اور کبھی “مسجد اقصیٰ”کے نیچے سرنگیں کھود کر اس مسجد کے انہدام کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ہیں اور ” مسجد اقصیٰ کی سوگوار فضا سارے عالم کے مسلمانوں سے “عہد وفا” کی تکمیل کا تقاضا کر رہی ہے- ( جاری ہے)

حوالہ: اقصیٰ کے آنسو

(ص 21- سے 27)

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف” آمین

[1:57 pm, 28/02/2021] Khula Walida Hina Bji:

اپنا تبصرہ بھیجیں