فیول پالیسی سے متعلق مسائل

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

 مختلف کمپنیوں میں جب نیا ملازم رکھاجاتاہے  توتنخواہ کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے  کہ اسے اپنے عہدے کے اعتبارسے  کمپنی کی طرف سے ماہانہ  کتنے لیٹر پیٹرول  ملے گا، پیٹرول کی یہ سہولت  فیول کارڈ کی شکل میں ہوتی ہے ،اورملازم منتخب کردہ کمپنی کے پیٹرول پمپ سے کارڈ کے ذریعے  پیٹرول ڈلواسکتا ہے ۔ کمپنیوں  کی طرف سے اپنے ملازمین کوجویہ فیول کی سہولت  دی جاتی ہے اس کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں ، ہماری کمپنی میں جو فیول کی سہولت دی جاتی ہے وہ تنخواہ کاحصہ ہی شمار ہوتی ہے ۔چنانچہ  اسی لیے جب ملازم کوآفرلیٹر دیاجاتا ہے توا س میں ملازم کوپورا  حساب کتاب  لکھ کردیاجاتا ہے  اوراس میں تنخواہ کےعلاوہ ملنے والی تمام سہولیات کی قیمت شامل کرکے ان کا مجموعہ  ذکر کیا جاتا ہے اوراس میں پیٹرول کی مقدار بھی درج ہوتی ہے ۔ آفر لیٹر  میں درج فیول کی سہولت کی یہ صورت ہوتی ہے :

 Fuel card (monthly fuel limit up to 200) 17,700

اس میں 200 لیٹر فیول کی سہولت (یعنی کہ 200 لیٹر پیٹرول کی موجودہ قیمت جو17700بنتی ہے) کوبھی سیلری  کاحصہ بناکے پیش  کیا گیا ہے ۔علاوہ ازیں ملازم رکھتے وقت  یا اسے فیول کی سہولت  دیتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا استعمال  کتنا ہے بلکہ صرف  یہ دیکھاجاتاہے کہ کمپنی کی پالیسی کےمطابق وہ اپنے گریڈ کے اعتبار سے کتنی مقدار میں اس سہولت  کا مستحق ہے، چنانچہ  اگرکسی کاگھر  کمپنی /دفتر  سے بالکل ہی قریب ہوتو بھی اسے یہ آفر حاصل ہوتی ہے ، اگرچہ  اس کا استعمال نہ ہونے کےبرابر ہو۔اور اگر  کوئی بہت دور سے آتا ہوتو بھی  اسے اپنے  گریڈ یا عہدے  کے اعتبار سے وہی طے شدہ  مقدار میں پیٹرول کارڈ دیاجاتا ہے۔ اگرچہ  اس کا استعمال اس مقدار سےزیادہ  ہو۔ا س تمام  تفصیل سے پتہ  چلا کہ ہمارے یہاں  یہ سہولت  ملازم کاحق ہوتی ہے اور گویا کہ وہ اس کا مالک ہوجاتاہے ۔ سب سے اہم بات  یہ کہ پالیسی  جاری کرنے والا شعبہ خود اس بات کا اقرار کرتاہے  کہ ملازمین اس پیٹرول  کے مالک ہیں جیسے چاہیں استعمال کریں ، چنانچہ  یہی وجہ تھی ہر ماہ  جتنا پٹرول  استعمال ہونے سے بچ جاتا ہے اس کی قیمت  کے بقدررقم ، تنخواہ کے ساتھ ملازم کے اکاؤنٹ  میں ڈال دی جاتی ۔ تاہم چونکہ بچ جانے والے پٹرول کی واپسی  کے طریق کار میں حساب کتاب کرنے کا ایک اضافی کام تھا، اس لیے ہمارے  ہاں اب یہ  پالیسی تبدیل کردی گئی اور یہ کہا گیا کہ  ملازم  جتنااستعمال کرسکتاہے کرلے ، واپسی  نہیں ملے گی ۔ باقی ماندہ  پٹرول کی قیمت کی واپسی بند ہونے کی وجہ سے جن لوگوں کاپٹرول بچ جاتا تھا، ان کےلیے مشکلات  پیدا ہونا  شروع ہوئیں توانہوں نے اس کے متبادل  نکالنے شروع  کردیے  ۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔ تاہم اس سے پہلے  فیول کارڈ سے متعلق مزید تفصیل ذکر کی جاتی ہے:

 فیول کارڈ کی شکل میں ملنے والی سہولت  کی تفصیل یہ ہے کہ مثال کے طور پر  اگر ایک ملازم اپنے عہدے  کے اعتبار سے 200 لیٹر پٹرول کا اہل ہے تو اس کا مطلب  ہے کہ وہ اتنا پٹرول وغیرہ  ایک مہینے  میں کمپنی  کی طرف سے مفت استعمال  کرسکتا ہے اور اس کی ادائیگی  کمپنی کرے گی۔ اور اس کا طریق کار یہ ہوگا کہ ملازم کوجوکارڈ دیا جائے گا اس کے اعتبار سے وہ ہر ماہ کی یکم تاریخ  سے مہینہ ختم ہونے تک پورے  200 یا اس کے اندر اندر جتنے لیٹر پٹرول  ڈلوانا چاہے ڈلواسکتا ہے ، اور یہ پٹرول  چاہے وہ گاڑی  میں ڈلوائے یا چاہے گھرکےجرنیٹر وغیرہ میں ، یا چاہے  کسی دوست  وغیرہ کو بالعوض  یا مفت  ڈلواکردے دے،  اس حوالے سےکمیٹی  کوکوئی غرض  یاکمپنی کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ہوتی ۔البتہ 200 لیٹر پورے  ہونے کے بعد اس سے زیادہ ڈلوانا ممکن نہیں ہوتا۔ اب اگر کسی نے دس تاریخ تک ہی پورے 200 لیٹر  پٹرول ڈلوالیا تواس کاحساب برابر  ہوگیا، لیکن اگر کوئی ملازم مہینے میں فیول استعمال نہیں کرسکا اور پورے  200 لیٹر یا کچھ مقدار  بچ گئی  اور اسی اثناء میں نیا مہینہ شروع ہوگیا تواب اس ماہ کی پٹرول کی بچی ہوئی مقدار ساخت/ضائع  ( Iapse) ہونے کا اندیشہ ہوتاہے ، کیونکہ بچ جانے والے پٹرول کے بدلے میں اسے کسی قسم کی ادائیگی (Reimbursement)  نہیں کی جائے گی جبکہ  نئے ماہ سے نیا حساب بھی شروع ہوجائے گا۔

اب اس مسئلے کےحل کے لیے  لوگوں نے کئی متبادل  نکالے ہوئے ہیں، مثلاً ایک متبادل یہ کہ بچاہوا پیٹرول کیش کروالیاجائے ۔ پٹرول  کیش کروانے کا مطلب  یہ ہے کہ پٹرول پمپ والے کارڈ ہولڈرکسٹمرزکویہ سہولت  بھی دیتے ہیں کہ پٹرول کی جتنی مقدار وہ چاہیں انہیں بیچ دیں اور اس کے بقدر ان سے رقم ( کچھ  روپوں کی کمی کے ساتھ)  حاصل کرلیں ۔ اور اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ مثلاً کسی کے کارڈ میں 30 تاریخ کو دس لیٹر  پٹرول باقی رہ گیا۔اس نے سوچا کہ اگرا سے استعمال میں نہ لایا گیا توضائع  ہوجائے گا، چنانچہ  ا س نے دس لیٹر  پٹرول جوکہ 1000 روپے کا تھا، وہ اس نے 900 کا بیچ دیا۔ گویا دوسرے لفظوں  میں یہ کہا جاسکتا ے کہ وہ پٹرول  جواسے عملی  طور پر  حاصل کرنے کاحق حاصل تھا وہ پمپ  والوں کوکم  قیمت پر بیچ  کر ان سے اس  کے بدلے  میں رقم لے لی ۔اس سے کارڈ ہولڈرکو یہ فائدہ  ہواکہ اسے رقم  مل گئی ( اگرچہ  1000 کےپٹرول کے استحقاق کےبدلے  میں 900 روپے ملے ، لیکن اس کے نزدیک کلی طور پرحق ضائع نہ ہونے سے یہ صورت بہتر  ہے) اور پمپ والوں کو100 روپے کا فائدہ  ہوجاتا ہے  کیونکہ وہ کمپنی سے پورے  1000 روپے وصول کریں گے  جبکہ انہوں نے یہاں 900 روپے  دیے ۔

یہاں مزید قابل توجہ بات  یہ ہے کہ جس طرح حقیقی طورپر  پٹرول ڈلوانے کی صورت  میں شیل کی طرف سے کمپنی کوپیش کردہ  بل  (statement) میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ ملازم نے فلاں پمپ سےفلاں وقت اتنے لیٹر پٹرول  ڈلوایا،اسی طرح  پٹرول ڈلوانے کے بجائے پٹرول کیش کروانے (یابالفاظ دیگر کٹوتی کے ساتھ پیسے لینے) کی صورت  میں بھی کمپنی کوپیش کیے گئے بل میں یہی ظاہر ہورہا ہوتا ہے کہ گویا متعلقہ ملازم نے فلاں تاریخ کو1000 روپے کا اتنے لیٹر پٹرول ڈلوایاہے اور اس میں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ ملازم نے پٹرول کیش کروایا ہے ۔

اس میں اگر اس پہلو کودیکھا جائے کہ یہ پمپ  والوں کی طرف  سے کارڈ جاری کرنے والی کمپنی  کے ساتھ دھوکہ دہی ہے (یعنی کہ پٹرول بیچا نہیں گیا بلکہ اس کی قیمت  دی گئی لیکن بل میں یہی ظاہر کیا گیا ہے کہ پٹرول ڈلوایا گیا ہے) تواس میں یہ پہلو بھی پیش  نظر رکھنا چاہیے ، کہ یہ 200 لیٹر پٹرول توایک عنوان ہے ورنہ گاڑی کےفیول سےمتعلق جتنی چیزیں ہیں مثلاً فلٹر، آئل، سی این جی  یا ڈیزل، جوبھی ڈلوایاگیا، ان اشیاء  کی قیمت  کی جگہ بھی ان کی قیمت کی مقدار  کے برابرپٹرول  کا حساب درج کیا جاتا ہے ۔ جیسے اگر کسی نے 500 روپے کی سی این جی  ڈلوائی توکارڈ سے 500 کی قیمت کےحساب سے پٹرول کی مقدار کاٹ لی جائے گی اور بعدمیں سلپ میں بھی یہی درج  ہوگا کہ 500 کا اتنے لیٹر پٹرول ڈلوایا گیا۔ فیول کارڈ سےحاصل کردہ تمام سہولتیں (فلٹر ڈلوانا،آئل ڈلوانا، سی این جی ڈلوانا یا کسی اور کوقیمتاً یاہدیۃً دینا، وغیرہ)  ھاصل کرنے پر سہولت  دینے والی کمپنی کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا، کیونکہ انہیں بھی کارڈ  میں  موجود استعمال شدہ  مقدار کے برابر  رقم ملازم کی کمپنی  کی طرف سے بلاحیل وحجت ادا کردی جاتی ہے۔ اس لیے انہیں اس سے غرض  نہیں ہوتی  کہ اس کارڈ کااستعمال کسی چیز کی خریداری  کے لیے کیا گیا۔اس تمام تر تفصیل کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب مرحمت  فرمائیں۔

1۔اس قسم کے حق کی شرعی حیثیت  کیا ہے۔ یعنی  وہ حق جوملازم کودیا بھی جارہا ہو لیکن اسے پوری  طرح سے آزادانہ  طور پر اس میں اختیار  بھی حاصل نہ ہو؟ صرف چند مخصوص صورتوں میں وہ اسےاستعمال کرسکتا ہو۔کیا اس لحاظ سے یہ پالیسی درست ہے  اور جاری رکھی جاسکتی ہے؟

2۔کمپنی  ملازمین کا پمپ والوں کوا س طرح  پٹرول (یا اپنا حق) بیچ  کر ان سے کم رقم لے لینا درست ہوگا یا نہیں؟ جبکہ وہ پٹرول کے ابھی مالک  نہیں بنے ہوتے۔ کیاحقیقی قیمت کےحساب سے بیچنے اور کم قیمت  پر بیچنے سے کوئی فرق پڑے گا یانہیں؟

3۔کمپنی سے ملنے والی  فیول کی سہولت کی مذکورہ بالاتفصیل کے پیش نظر کیاکوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ کسی دوست کو1000 روپے کا لیٹر  کاپٹرول اپنے کارڈ سے ڈلواکے دےا ور اس سے 1000 یا اس سے کم یعنی 900 روپے وصول کرلے؟

4۔اسی طرح اگر کوئی شخص اس کارڈ سے گاڑی سےمتعلق دیگر سہولیات حاصل کرتاہے  یا پھر جس آئل کمپنی کا کارڈ ہے، پمپ  پر بنی ہوئی اسی کمپنی کی دکان سے کوئی خریداری کرتا ہے توکیایہ درست ہوگا؟

جزاکم اللہ خیرا۔۔۔

سائل ابومعاذ راشد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامداومصلیاً

سوال میں ذکرکردہ تفصیل  کےمطابق آپ کی کمپنی میں ملازم کوپیٹرول کی سہولت، تنخواہ کے طور پر دی جاتی ہے ،اور ہر ماہ جتنا پیٹرول استعمال سے بچ جاتا ہے اس کی قیمت  کے بقدر  رقم ملازم کے اکاؤنٹ  میں ڈال دی جاتی تھی ، تاہم نئی پالیسی کے مطابق بچی ہوئی مقدار کی قیمت واپس نہیں ملتی۔ اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملازم کوپٹرول مالکانہ طور پر دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس  نے گاڑی میں جتنا پٹرول  ڈلوالیا ہے صرف  وہ اسی کا مالک ہے، یعنی  ملازم کی گاڑی میں موجود پیٹرول میں سے استعمال کے بعد جو بچ جائے اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کارڈ پر جتنے  پیسے لکھے ہوئے ہیں وہ اس پورے  پیٹرول کامالک ہے، کیونکہ اگرا یسا ہوتا توبچی ہوئی  مقدار  کے پیسے ملازم کوواپس مل جاتے۔

اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات  درج ذیل ہیں :

  • 1۔مذکورہ پالیسی باہمی رضامندی  سے طے کرنا شرعاً درست ہے،اورملازم پٹرول کی جتنی مقدار استعمال  کرلےگا وہ اس کی تنخواہ کا حصہ ہوگا،اس صورت میں اگرچہ ملازم کی مجموعی تنخواہ میں جہالت ہوگی، لیکن اگرملازم کی تنخواہ کچھ نہ کچھ  متعین  ہواور تنخواہ کا باقی حصہ سہولیات کی شکل میں ہوجوملازم کے استعمال سے کم وبیش ہوتی رہتی ہوں اور یہ معاملہ باہمی رضامندی سے ہواور اس میں کوئی نزاع نہ ہوتواس طرح تنخواہ طے کرنے کی گنجائش ہے۔
  • 2،3) مذکورہ دونوں صورتیں شرعاً درست نہیں ، کیونکہ ملازم اس پیٹرول کامالک ہی نہیں ہے کہ وہ اسے کسی قیمت  پرفروخت کرسکے ۔

4)اگرملازم کی کمپنی کےضابطہ  میں پیٹرول کارڈ سے صرف پٹرول ڈلوانے کے بجائے گاڑی کی متعلقہ دیگر اسشیاء بھی خریدنے کی اجازت ہو تو یہ صورت جائز ہے ورنہ نہیں۔

حاشیة ابن عابدین ۔ (۶/۴۷)

واللہ سبحانه وتعالیٰ

محمد حذیفہ عفااللہ عنه

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

12/رجب المرجب ۔1441ھ

8/مارچ  2020

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1041799349522643/

اپنا تبصرہ بھیجیں