گھر کے سربراہ کا قربانی کردینا

فتویٰ نمبر:941

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

ایک شخص کی کفالت میں 50 افراد بھی ہوں تو ایک قربانی خواہ بکراوغیرہ خواہ بڑے جانور میں ایک حصہ کافی ہے، اس سے کوئی غرض نہیں کہ قربانی کرنے والا اور اس کے زیر کفالت تمام افراد کڑوڑوں کماتے ہوں، پھر بھی وہ ایک حصہ یا چھوٹا مکمل جانور ذبح کردے تو اس وعید میں نہیں آئیں گے وہ سب افراد جس میں فرمایا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ

وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے جو صاحب استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے،

ہاں 10 ذی الحج کو جانور ذبح کرنے سے بڑھ کر کوئی غیر فرض نیکی پسندیدہ نہیں، اس لیے اگر ایک فیملی کے تمام افراد الگ الگ قربانی کرتے ہیں یا کفیل صاحب ثروت ہونے کی بنا پر ایک سے زائد جانورذبح کرتا ہے تو بھی درست اور اضافی اجر وثواب کا باعث ہوگا، لیکن وہ مؤکد سنت نہیں ہوگی، البتہ سنت ہوگی جیسے آپ علیہ السلام نے حجۃ الوداع میں 100 اونٹ ذبح کیے

یہ پوسٹ چل رہی ہے لوگ گمراہ ہو جائیں گے.اس کا جواب چاہیے۔

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

واضح رہے کہ گھر کے سربراہ کا ایک قربانی کردینا جبکہ دیگر افراد صاحب نصاب ہوں، کافی نہیں۔

گھر کے ہرعاقل بالغ صاحب نصاب مرد و عورت پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہوتی ہے۔( رد المحتار ج:6ص312)

اگر مشترکہ کاروبار ہے تو بھی ہر صاحب نصاب فرد کو علیحدہ علیحدہ قربانی دینی ہوگی ۔(مستفاد از:مسائل رفعت قاسمی ج:١٧،ص:١١٨)

عورت اگر مالک ِ نصاب ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔ (در مختار مع شامی:453/9)

قال الاضحیۃ واجبۃ علی کل حرمسلم مقیم موسر فی یوم الاضحی عن نفسہ والیسار لماروینا من اشتراط السعۃ ومقدارہ مایجب بہ صدقۃ الفطر ‘‘ … ( الہدایۃ : ۴۴۳ ، ۴۴۴ / ۴ )

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

“گھر میں ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے ،ایک کی قربانی سب کے لیے کافی نہیں ہوسکتی ،اگر بکرے کی قربانی گراں گذرتی ہے تو بڑے جانور کی قربانی کی جائے۔”

(فتاوی رحیمیہ:٥/٤١٥)

فصل لربک وانحر میں جو حکم ہے وہ وجوب کے لیے ہے۔(فتاوی زکریا ج:٦ص:٣٣٩)

قال رسول اللہ ﷺ”من کان لہ سعة و لم یضح فلا یقربن مصلانا”

بدائع الصنائع میں ہے:

“من شرائط الوجوب الغنی و ھو ان یکون فی ملکہ مائتا درھم او عشرون دینارا او شیء تبلغ قیمتہ ذلک سوی مسکنہ و ما یتاثث بہ و کسوتہ و خادمہ و فرسہ و سلاحہ و ما لا یستغنی عنہ و ھو نصاب صدقة الفطر (بدائع الصنائع 5/64)

“الاضحیة واجبة علی کل حر مسلم مقیم موسر فی یوم الضحی عن نفسہ” (بحر الرائق:ج٨،ص١٧٣)

حاصل یہ کہ یہ ہر صاحب نصاب کے لیے ایک واجب عمل ہے، سربراہ کی قربانی پورے گھرانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ نیز قربانی واجب ہے، اس کو سنت کہنا ہماری نظر میں درست نہیں ۔

اس حوالے سے مزید تفصیل ہماری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجیے👇🏻

http://www.suffahpk.com/ayk-janwer-ki-qurbani-sary-ghar-walou-ki-taraf-sai-kafi-hopsakti-hai-ya-nhi/

و اللہ سبحانہ اعلم

✍بقلم : بنت سبطین عفی عنھا

قمری تاریخ:4 ذوالحجہ 1439

عیسوی تاریخ:15 اگست 2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم صاحب

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں