فتویٰ نمبر:4081
سوال: کسی قطر کرنسی مدرسے کی امداد کے لیے بھیجی تھی، اس خاتون نے وہ کرنسی محفوظ رکھی ہے کہ جب ریٹ بڑھے تو ایکسچینج کروا کر مدرسے میں لگا دوں۔اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح رکھنا جائز ہے؟ اور جو کرنسی بڑھنے کے بعد منافع ملے گاریٹ بڑھنے کی وجہ سے وہ جائز ہوگا؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
1۔اگر بھیجنے والے کی طرف سے صراحتاً یا عرفاً رقم کچھ عرصہ روکنے کی اجازت ہے تو اگر وہ رقم زکوة کی ہے تو زکوة میں جلد از جلد ادائی بہتر ہے،البتہ نفلی صدقہ کی صورت میں اس طرح ریٹ بڑھنے کے لیے روکنا جائز ہےکیونکہ اس میں فقراء کے لیے زیادہ نفع ہے۔
2۔ریٹ بڑھنے کی صورت مں جو اضافی رقم ملتی ہے وہ سود نہیں،لہذا اس کا لینا بھی جائز ہے۔
”مافی ” فتح القدیر والفتاوی الہندیة“: قال : واذا عدم الوصفان الجنس والمعنی المضموم الیه حل التفاضل والنساء لعدم علة الحرمة والاصل فیه الاباحة،واذا وجد حرم التفاضل والنساء لوجود العلة،واذا وجد احدھما وعدم الاخر حل التفاضل وحرم النساء“۔ (فتح القدیر:١١/٧، الفتاوی الہندیة:١١٧/٣)
(کتاب الفتاوی:٢٦٢/٥،فتاوی حقانیة:١٠٤/٦،آپ کے مسائل اور ان کاحل:١٩٢/٦)
“مختلف ملک کی کرنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ کمی و زیادتی،ادھار و نقد بیچنا اور تبادلہ کرنا شرعا جائز ہے“۔
(محقق و مدلل جدید مسائل: ١/٣٣٠)
”لا الوکیل لا یجوز له المخالفة، ولا أن یشتري لنفسه“.
۱۱؍جمادی الثانی ۱۳۳۲ ھ (حوادث اولی:١٤١)
”اتفق الفقهاء علی أن الوکیل أمین علی ما تحت یدہ من أموال لموکله فهي بمنزلة الودیعة“۔ (الموسوعة الفقهية الکویته:٨٦/٤٥)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:20رجب 1440ھ
عیسوی تاریخ:27مارچ 2019ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: