غیر مسلم کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! غیر مسلم اگر مسلمانوں کے قبرستان میں اپنے مردے دفن کردیں تو شرعاً کیا حکم ہے، حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔

آیا ان مردوں کو اس قبرستان میں رہنے دیا جائے گا یا نکالنے کا حکم دیا جائے گا؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

1۔ واضح رہے کہ عہد نبوی سے مسلمانوں کا قبرستان کفار سے ہمیشہ جدا رہا؛ لہذا کسی بھی غیر مسلم کو مسلمانوں کے قبرستان میں بالکل نہ دفنایا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو قبروں کی زیارت کرنے اور قبرستان جانے کا حکم دیا ہے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ جب کہ غیر مسلم اگر مسلمانوں کے قبرستان میں مدفون ہوگا تو اس پر بھی دعا پڑھی جائے گی حالانکہ وہ مغفرت کا مستحق نہیں اور نہ اس کی قبر کے پاس کھڑا ہونا جائز ہے۔

چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

“وَلا تُصَلِّ عَلىٰ أَحَدٍ مِنهُم ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُم عَلىٰ قَبرِهِ”.

(سورة التوبة: 84)

ترجمہ:

“(اے نبی) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس ( کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر ) کھڑے ہونا”۔

2۔ اگر بالفرض غیر مسلم کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا ہو تو اس صورت میں اگر غالب گمان یہ ہے کہ میت تازہ ہے، تو اس کو نکال لیا جائے، اور اگر غالب گمان اس کے بوسیدہ ہونے کا ہو تو پھر اس قبر کو ہموار کرکے نشانات مٹا دیے جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ صحیح البخاری میں ہے:

“فأمر النبی صلى الله عليه وسلم بقبور المشرکین فنبشت”.

(صحیح البخاري: 1/61)

ترجمہ:

“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبریں اکھاڑنے کا حکم فرمایا”۔

2۔ صحیح بخاری میں قصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں ہے:

“وإِلا فردونی إِلی مقابر المسلمین”.(صحیح البخاری، باب ما جاء فی قبر النبی صلی الله علیه وسلم، وأبی بکر، وعمر رضی اللَّه عنهما:139/2)

ترجمہ:

“(مجھے اگر قبر نبوی کے پاس دفن ہونے کی اجازت نہ ملی) تو پھر مسلمانوں کے قبرستان میں مجھے دفن کردینا”۔

3۔ وفي مجمع الأنهر:

“وشرطھا أی شرط جواز الصلاۃ علیه إسلام المیت، فلا تصح علی الکافر لقوله تعالیٰ: { و لا تصل علی أحد منھم مات أبدًا }

(مجمع الأنھر: 1/182) محشی

4۔ مراقی الفلاح میں ہے:

’’واما اھل الحرب فلا بأس بنبشهم أحتیج إلیه”.

(مراقی الفلاح: 471 )

ترجمہ:

“اگر ضرورت ہو تو حربی کفار کی قبریں اکھاڑ دی جائیں”۔

5۔ وفي الأشباه والنظائر:

“وإذا مات (المرتد)……..لم يدفن في مقابر المسلمين”.

(الأشباه والنظائر:1/291)

6۔ فتاویٰ خیریہ میں ہے:

“وقال عقبة بن عامرو واثلة بن الاسقع یتخذ لھا قبر على حدۃ وھو احوط”۰

(فتاوی خيریة علیٰ حامش فتاوی حامدیة: 1/26)

ترجمہ:

“عقبہ بن عامر اور واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ ان کے دفن کی جگہ علیحدہ ہونی چاہئے”۔

7۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور ﷲ مرقدہ فرماتے ہیں:

’’وان کانت قبور المشرکین فینبغی ان ینبش لانھا محل العذاب”.

(لامع الدرادی: 2/39)

ترجمہ:

“اور اگر مشرکین کی قبریں ہوں تو ان کو اکھاڑ دینا چاہئے؛ کیونکہ وہ محل عذاب ہے”۔

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

11ربیع الثانی 1443ہ

17 نومبر2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں