غیر مسلم ممالک سے آئے ہوئے اشیائے خورد و نوش اور دیگر مصنوعات کے استعمال کا حکم

 فتویٰ نمبر:2015

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

سوال یہ ہے کہ باہر ممالک کینیڈا ,انگلینڈ ,دبئ وغیرہ سے جو چاکلیٹس آتی ہیں ان پر حلال نہیں لکھا ہوتا ان کا کیا حکم ہے؟اسی طرح غیر ممالک سے آنے والے پرفیوم اور لوشن وغیرہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

والسلام

سائل کا نام: صدف آفرین

الجواب حامداومصليا

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

جواب سے پہلے تہمید کے طور پر چند باتوں کا جاننا ضروری ہے:

کھانے پینے یا استعمال کی جو چیزیں اس وقت بن رہی ہیں،اس کا مندرجہ ذیل چار اقسام میں سے کسی ایک سے تعلق ہوتا ہے:

حیوانات،نباتات ،معدنیات، مصنوعی اجزاء. 

حیوانات کے علاوہ آخری تینوں یا ان کے مرکب سے بنی ہوئی مصنوعات میں اصل” اباحت”ہے۔ جب تک ان میں کوئی مسکر یا مضر صحت نہ ہو یا جب تک ان میں کسی حرام چیز کی آمیزش نہ ہو ان کا استعمال اور کھانا جائز ہے۔

جبکہ حیوانات سے بننے والی مصنوعات میں تحقیق کی جائے گی ،جس میں بنیادی طور پر دو چیزوں کو دیکھا جائے گا:

1۔اس جانور کا حلال ہونا

2۔اس جانور کا شرعی طریقے سے ذبح ہونا یعنی مردار نہ ہونا۔

اگر مذکورہ بالا دو شرائط پائی جاتی ہیں تو وہ چیز حلال ہے۔ ان میں سے ایک بھی کم ہوئی تو وہ حرام ہے۔

ان چاروں کے علاوہ ایک پانچویں قسم ہے جس کو “مرکبات “کہا جاتا ہے یعنی اوپر بیان کی گئی چار اقسام میں سے بعض کے یا سب کے مجموعے سے بننے والی چیزیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ پہلی تین یا ان میں سے بعض کا مرکب حلال ہے جب تک عدم جواز کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔ جبکہ وہ مرکب جس میں حیوانات کے جزو کی آمیزش ہو اس میں احتیاط کرنے کا حکم ہے،جب تک تحقیق سے اس جانور کی حلت یا حرمت واضح نہ ہو جائے۔

اب آتے ہیں جواب کی طرف! 

غیر مسلم ممالک سے آنے والی اشیاء کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے جن کو ہم یہاں نکات میں بیان کریں گے:

(1) غیر مسلم ممالک سے آنے والی وہ اشیاء جو وہیں پر بنتی ہیں اور جو پہلی تین مباحات یا ان کے مرکب سے بنی ہو، ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

(2) غیر مسلم ممالک سے آنے والی وہ اشیاء جو حیوانات سے بنتی ہیں یا حیوانات کا کوئی جزو دوسرے مباحات میں شامل کردیا جاتا ہے، ان کی تحقیق کی جائے گی اور تحقیق کے بعداس پر حلت و حرم کا حکم لگایا جا سکتاہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک سے آنے والی مصنوعات میں حرمت چار یا ان میں سے کسی ایک کی بنا پر آتی ہے:

(الف) غیر مسلم ممالک میں خنزیر کا مسئلہ آتاہے کہ وہاں خنزیر کے اجزا، اس کا گوشت وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔

(ب) ان کے ذبیحے کا مسئلہ ہے کہ وہ حلال طریقے سے ذبح نہیں کرتے تو جانور مرداد ہو جاتا ہے۔

(ج‌) تیسرا شراب سے بننے کا مسئلہ آتا ہے، یعنی جو چیز چار قسم کی شراب: خشک اور تر کھجور،انگور اور کشمش کے شراب سے بنی ہو۔جس کی حرمت منصوص ہے۔ یہ اگر کسی چیز میں پڑ جائے تو وہ ناپاک اور حرام ہے. ان چار شرابوں کے علاوہ شراب ڈالی گئی ہو تو وہ چیز ناپاک تو نہیں لیکن نشہ آور ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔

(ج) چوتھا مسئلہ:کچھ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو حشرات الارض سے بنتی ہیں۔

ان سب کے کوڈز مصنوعات پر لکھے ہوتے ہیں ان سے پتا چل سکتا ہے کہ کیا چیزیں ملائی گئی ہیں؟ 

غیر مسلم ممالک کی مصنوعات ان چار یا ان میں سے کسی ایک وجہ کی بنا پر مشکوک ہوجاتی ہے،اگر تحقیق سے معلوم ہو اور ان تینوں وجوہات میں سے کوئی وجہ پائی گئی تو وہ حرام ہے۔اگر تحقیق نہ ہو توان اشیاء کے استعمال سے پرہیز کیا جائے گا۔کیونکہ جب تک قطعی ثبوت نہ ہو اس وقت تک اس پر حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا،لیکن اس کے استعمال کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

تاہم اگر تحقیق سے معلوم اور یقین ہو جائے کہ اس چیز میں ان تینوں میں سے کوئی وجہ پائی جا رہی ہے لیکن تبدیلی ماہیت ہو گئی ہے تو پھر اس کےاباحت کا حکم لگے گا۔

(3) غیر مسلم ممالک سے آنے والی وہ اشیاء جس کی کسی مستند مسلم ادارے نے حلت کی تصدیق کی ہو ،حلال سرٹیفائڈ ہوتو ان کا استعمال جائز ہے۔

(4) (الف) وہ اشیاء جو مسلم ممالک میں بنتی ہیں اور وہی سے غیر مسلم ممالک میں پہنچتی ہیں ،پھر وہاں سے ہمارے پاس آتی ہیں ۔ایسی اشیاء کا استعمال بھی جائز ہے۔(ب) غیر مسلم ممالک سے آنے والی یا غیر مسلم ممالک سے بن کر مسلم ملک سے گزر کر آنے والی اشیا میں اس کے اجزا کو دیکھا جائے گا،اگر اس میں کوئی حرام یا ناجائز جزو شامل نہیں تو جائز ورنہ اس کے استعمال سے احتیاط کرنا چاہیے جب تک کہ اس پر تحقیق نہ ہو جائےاور اس کی حلت وحرمت واضح نہ ہو جائے۔

اصل جواب: 

مذکورہ بالا تفصیل سے جواب واضح ہو جاتا ہے۔چاکلیٹس وغیرہ کیونکہ حیوانات کے قبیل سے نہیں ہے لیکن اس میں حیوانات کا جزو ہوسکتا ہے جسے ای کوڈز سے معلوم کیا جاسکتا ہے تو اگر یہ غیر مسلم ممالک ہی میں بنی ہے تو اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے، گو تحقیق کے بغیر حرام نہیں کہہ سکتے۔ اگر مسلم ممالک میں بنی ہے تو کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

جہاں تک لوشن، پرفیوم (کاسمیٹکس)وغیرہ کی بات ہے تو ان میں بھی جب تک قطعی طور پر کسی حرام چیز کے شامل ہونے کا علم نہ ہو جائے تب تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔تاہم اگر ان میں الکوحل پایا جائے تو یہ تحقیق کی جائے گی کہ آیا یہ وہ الکوحل ہے جو چار حرام قسم کے شراب سے بنتا ہے یا عام شراب(جو اناج وغیرہ سے بنایا جاتا ہے) سے بننے والا الکوحل ہے۔پہلی صورت میں ناپاک اور حرام اور دوسری صورت میں پاک ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال جائز ہوگا۔تاہم اگر معلوم ہو جائے کہ کوئی حرام چیز کی آمیزیش تو ہے لیکن تبدیلی ماہیت ہو گئی ہے تو پھر اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں. 

“ولا ملح کان حمارا أو خنزیرا ولا قذر وقع في بئر فصار حمأة لانقلاب العین بہ یفتی”(درمختار)قال فی الفتح: وکثیر من المشائخ اختاروہ وھو المختار لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومہا فکیف بالکل فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح ونظیرہ في الشرع: النطفة نجسة وتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر والعصیر طاہر فیصیر خمرا فینجس ویصیرخلاً یطہر فعرفنا أن استحالة العین تستتبع زوال الوصف “

“الیقین لایزول بالشک”

(شک یقین کو ختم نہیں کرتا)

” الحرج مدفوع المشقة تجلب التیسیر”

(حرج مشقت کو دور کرتا ہے آسانی لاتا ہے)

“الثانی أنہم لایذکون ما تضع منہ الأنفخة بل یضربون رأس البقر ولا یذکونہ وأما الوجہ الثانی فقد علم أنہ لیس کل یعقرونہ من الأنعام یترکون ذکوٰتہ بل قد قیل انہم انما یفعلون ہذا بالبقر وقیل انہم یفعلون ذلک حتی یسقط ثم یذکونہ ومثل ہذا لایوجب تحریم ذبائحہم بل اذا اختلط الحلال بالحرام فی عدد لا ینحصر کاختلاط أختہ بأہل البلد واختلاط المیتة والمغضوب بأہل بلدة لم یوجب ذلک تحریم ما فی البلد کما اذا اختلط الاخت بالأجنبیة والمذکی بالمیتة فہذا القدر المذکور لا یوجب تحریم ذبائحہم المجہولة الحال وبتقدیر أن یکون الجبن مصنوعا من أنفخة میتة فہذہ المسئلة فیہا قولان أحدہما أن ذلک مباح طاہر کما ہو قول أبی حنیفة و أحمد احدی الروایتین، والثانی أنہ حرام نجس کقول مالک والشافعی الخ والمطہرون احتجوا بأن الصحابة أکلواجبن المجوس مع کون ذبائحہم میتة”

(فتاویٰ ابن تیمیہ ۱۲/۵۳۳)

و اللہ سبحانہ اعلم

✍بقلم : بنت ممتاز عفی عنھا

قمری تاریخ:18 محرم،1440ھ

عیسوی تاریخ:29 ستمبر،2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

HTTPS://M.FACEBOOK.COM/SUFFAH1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

HTTPS://TWITTER.COM/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

WWW.SUFFAHPK.COM

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

HTTPS://WWW.YOUTUBE.COM/CHANNEL/UCMQ4IBRYCYJWOMADIJU2G6A

اپنا تبصرہ بھیجیں