جی پی فنڈ کا شرعی حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر131

 کیافرماتے ہیں علماء  دین  شرع متین  اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

 حکومت  ہر ملازم افسر کی مندرجہ ذیل طریقے  سے امداد  کرتی ہے ۔

1۔بینوولنٹ  فنڈ : یہ فنڈ   ہر ملازم کی تنخواہ  سے جبراً کاٹا جاتا ہے  اور ملازم اس کو اپنی  زندگی   میں حاصل   نہیں  کرسکتا  چاہے ریٹائر ہی کیوں  نہ ہوجائے ،ا س کی موت  کے بعد متوفی  کی اولاد یا بیوی  یا والدین  کو یہ رقم دی جاتی ہے  اگر ان میں سے کوئی  بھی  نہ ہوتو بیوہ بہن  کو یہ رقم دی جاتی  ہے۔ بہن  کے خاوند  کے زندہ ہونے کی صورت  میں یہ  رقم  کسی کو بھی  نہیں ملتی  حتی کہ سگےبھائیوں کو بھی نہیں ملتی ۔

2۔ گریجویٹی  : یہ رقم پینشن کا ایک حصہ ہے جوملازم  کی  تنخواہ  سے نہیں کاٹی جاتی  یہ رقم  بھی ملازم  کے فوت ہونے کی صورت میں بیوی  بچے یاوالدین  کے نہ ہونے کی صورت  میں بیوہ بہن کو ملتی ہے  ، اگر بہن  کا شوہر زندہ  ہو تو کسی کو بھی نہیں ملتی ۔

3۔ گروپ انشورنس : یہ رقم  ملازم  کی تنخواہ  سے جبراً کاٹی جاتی ہے ،ا ور ملازم کےپنشن  ہونے کی صورت میں اس کی زندگی  میں یہ رقم اسے ملتی ہے ،ا ور اگر  ملازم دوران  ملازمت  فوت ہوجائے تو یہ رقم اس  کے بیوی بچے اور والدین نہ ہونے کی صورت  میں اس کی بہن  کو ملتی ہے بشرطیکہ  بہن  بیوہ ہو، بھائیوں کو یا کسی اور کو ہر گز نہیں ملتی ۔

4۔ جی پی فنڈ  : یہ فنڈ  بھی ملازم کی تنخواہ  سے جبراً کاٹاجاتا ہے  اور ملازم کی عمر پچاس سال ہوجائے  تو وہ یہ رقم وصول کرسکتا ہے  ، اگر چہ ریٹائر نہ بھی ہو ،ا ور اگر اس سے  پہلے ا س کو نکالنا  چاہے  تو ا س کا  کچھ  حصہ ملتا ہے  جو کہ تنخواہ  سے کاٹ کر واپس لیاجاتا  ہے، اور ریٹائر  ہونے  کی صورت  میں یہ فنڈ مکمل ملتا ہے ۔ یہ رقم پہلے تین  قسموں  کے برعکس ملازم  فوت  ہونے کی صورت میں  اس کے ورثاء  حاصل کرسکتے ہیں۔ا س  میں صرف  بیوی  بچے  یا والدین  یا  بیوہ  بہن نہ ہونے کی صورت  میں یہ فنڈ  واپس حکومت  کو نہیں جاتا بلکہ کسی  اور وارث  کو بھی دیا جاتا ہے ، مثلاً سگے بھائی وغیرہ ۔

مذکورہ تفصیل  کے بعد عرض   یہ ہے کہ ایک ایسے ملازم  افسر کا انتقال  ہوا جس کی نہ بیوی  ہے اور نہ اولاد  اور نہ والدین   ہیں صرف دو سگے بھائی اور ایک سگی  بیوہ بہن  ہے جی پی فنڈ کے علاوہ  باقی تمام رقم حکومت کی طرف سے صڑف بہن  کو ملی ہے  جو کہ  بیوہ ہے اور اب بھائی  بہن  سے مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ رقم شریعت کی رو سے  ہمیں  بھی ملنی چاہیے  اور قانون وراثت  کی رو سے تقسیم  ہونی چاہیے  آیا  شریعت   کی روسے  اس رقم کے حقدار ہیں یا نہیں ؟ ہر  دوصورتوں کو ازراہ کرم  مدلل مفصل تحریر فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ حضرات کے مساعی  کو قبول  فرمائے نیز پینشن  کا کچھ  حصہ  بھی بیوہ بہن  کے نام جاری  ہوا ہے، بھائی مطالبہ  کررہے ہیں  کہ یہ پنشن  بھی ہم سب  کے درمیان  تقسیم  ہونی چاہیے اس کابھی جواب تحریر فرمائیں کہ بھائیوں کا بھی اس میں حق ہے کہ نہیں ؟

الجواب حامداومصلیا ً

 سوال پر غور کیاگیا سوال میں  بینوولنٹ فنڈ ، گریجویٹی اور گروپ  انشورنس   کے متعلق ادارہ  کا جو ضابطہ  اور قانون  لکھاگیاہے  اس کی رو سے  ادارہ تمام  فنڈز مرحوم کے پس ماندگان  میں سے  جس کو متعین کرکے دے گا وہ ان تمام فنڈ زکا مالک ہوجائے گا ،ا س کے علاوہ  دوسرے کسی وارث  کو ا س سے حصہ  نہیں ملے گا۔ کیونکہ مذکورہ قانون    کے مطابق یہ فنڈز مرحوم ملازم کے ترکہ میں شامل نہیں  ہیں بلکہ مرحوم  ملازم کے پسماندگان کے لیے ادارہ  کی طرف سے ایک عطیہ ہے اور عطیہ کا حکم یہ ہے کہ  جس کو متعین   طور پر دیاجاتاہے  وہی اس کا مالک ہوتا ہے  ۔

 تاہم گروپ انشورنس  کے بارے میں مزید تفصیل  یہ ہے کہ اگر گروپ   انشورنس کی رقم ادارہ اپنے  خزانہ میں شامل کرکے  مرحوم پسماندگان  کو دیتا ہے تو اس کا لینا جائز ہے  لیکن اگر گروپ  انشورنس کی یہ رقم براہ راست  کمپنی سے وصول  کرنی پڑتی ہے  تو اس صورت میں   اتنی رقم وصول کرنا جائز ہے جتنی رقم ادارہ نے پریمیم  کے طور پر انشورنس کمپنی کو ادا کی ہے اس سے زائد  رقم لینا جائز نہیں ہوگی ،ا گر غلطی سے لے لی  ہے تو اس زائد  رقم کو صدقہ  کردینا واجب ہے ۔

اور جہاں تک  بی ، پی فنڈ کا تعلق ہے تو اس میں  یہ تفصیل  ہے کہ  اگر یہ  فنڈ  جبری  ہے تو اس  پرا صل رقم کے ساتھ سود   کے نام سے جو زائد رقم ملتی ہے وہ شرعاً سود نہیں ہے۔ ورثاء کے  لیے  اس کو لینا جائز ہے، بشرطیکہ  یہ رقم ادارہ اپنے خزانے سے دے ، لیکن اگر یہ   فنڈ اختیاری ہے تو ا سمیں ربا کا شبہ ہے  ا س لیے سود کے نام سے ملنے والی زائد رقم  سےا حتیاط  کرنا بہتر  ہے البتہ  اصل رقم لینا درست ہے ، بہرحال  یہ فنڈ جبری ہو یا اختیاری  اس کی رقم  چونکہ  ملازم  کو ادا کرنا قانونی طور پرا دارہ کے لیے لازمی ہے او ر ملازم  اپنی زندگی ہی میں ا س کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے ا س لیے  یہ رقم اس کے ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثاء  پر اصول  میراث کے مطابق  تقسیم ہوگی ۔

اس تفصیل  کے بعد مذکورہ  سوال کا  جواب  یہ ہے کہ بینو ولنٹ  فنڈ ، گریجویٹی ، گروپ  اور پنشن  کی یہ رقم واجب ادارہ  مرحوم ملازم کی بیوہ  بہن کو مخصوص  کرکے دیتا ہے  تو یہ بہن ان تمام رقوم  کی تنہا مالک ہے، دونوں بھائیوں کو ا س سے کچھ  نہیں ملے گا ، لہذا بہن سے کسی  حصے کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے، اور جہاں تک جی پی فنڈ کا تعلق ہے وہ مرحوم ملازم کا  ترکہ ہے  اس لیے بیوہ  بہن تنہا  اس کی مالک نہیں ہے بلکہ  اصول میراث  کے مطابق دونوں بھائیوں کو  بھی اس  سے حصہ ملے گا ۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ 

محمد کمال الدین احمد راشدی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

بینو ولنٹ فنڈ،گروپ انشورنس اور پراویڈنٹ  فنڈ کے بارے میں جواب صحیح  ہے، البتہ  گریجویٹی  کے  ضوابط مختلف  اداروں میں مختلف ہوتے ہیں اصل مدار یہ ہے کہ اگر گریجویٹی  کا ملازم زندگی میں حقدار  ہوگیاتھا تو وہ تنخواہ  کا حصہ ہوکر ترکے میں شامل ہوگا اور اگر نہ ملازمت کی شرائط  کا حصہ تھا اور نہ ملازم زندگی میں اس کا حقدار تھا تو اس کا حکم بھی بینوولنٹ فنڈ جیساتھا ۔

واللہ اعلم  

احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ

2۔4۔1413ھ

 پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/565219093847340/

اپنا تبصرہ بھیجیں