حالت حيض ميں عمرہ کرنا

فتویٰ نمبر:4080

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

ایک خاتون عمرے پر جارہی ہیں انہوں نے سوالات پوچھے ہیں:

1۔ عمرے کے دوران اگر حیض شروع ہوجائے تو کیا کیا جائے؟

2۔ کیا ہم عمرے کے ارکان نہیں ادا کرسکتے؟

3۔ کیا اس طرح عمرہ خراب ہوجاتا ہے؟ مثلا اس کا کوئی ھدیہ وغیرہ دینا پڑے گا؟ اور مجھے کوئی کہہ رہا تھا کہ عمرہ نہیں ہوتا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ 

4۔ اور کیا اگر حیض شروع ہوجائے تو عمرے پہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟

5۔ اگر ٹیبلٹ کھالیں تو کیسا ہے؟

اس کے علاوہ کوئی ضروری بات ہو تو رہنمائی کردیں۔

والسلام

الجواب حامدا ومصلیا

1۔ سوال سے مراد اگر یہ ہے کہ عمرہ کر رہی تھی اور اسی دوران حیض شروع ہو گیا تو اس صورت میں عورت پر لازم ہے کہ فورا مسجد سے باہر آجائے اور طواف کو روک دے۔بعد میں پاک ہونے کے بعد عمرہ مکمل کرے۔البتہ اگر عمرے کا طواف کر چکی تھی صرف سعی باقی تھی تو چونکہ مسعی مسجد کا حصہ نہیں اور سعی کے لیے طہارت ضروری نہیں،لہذا اس حالت میں صرف سعی کرنے کی گنجائش ہے۔سعی کر کے بال کٹوا دے گی تو عمرہ مکمل ہو جائے گا۔

اگر سوال سے مراد یہ ہے کہ عمرے کا احرام باندھنے کے بعد ( ابھی عمرہ شروع نہیں کیا تھا کہ) حیض آگیا تو اس صورت میں یہی حکم ہے کہ پاک ہونے کا انتظار کرے اور پاک ہونے کے بعد غسل کر کے عمرہ کرے۔

2۔ احرام باندھنے کے بعد عمرے ادا کرنے کے لیے سب سے پہلے طواف کیا جاتا ہے اور حالت حیض میں طواف کرنا جائز نہیں اور اسی طرح حائضہ عورت کے لیے مسجد میں داخل ہونا بھی منع ہے۔لہذا اس حالت میں عمرہ کرنا جائز نہیں۔

3۔ اگر سوال سے مراد یہ ہے کہ احرام باندھنے کے بعد حیض شروع ہونے سے عمرہ خراب ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں۔حیض ایک فطری عمل ہے۔بس شرعا اس کو ناپاکی شمار کیا گیا ہے لہذا اس حالت میں عمرہ کرنا منع ہے۔پاک ہونے کے بعد عمرہ مکمل کر لے اور اس سے نہ ثواب میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ ہی کوئی کفارہ لازم ہوتا ہے۔

البتہ اگر کوئی حالت حیض میں عمرے کا طواف کر لے تو اس صورت میں گناہ گار بھی ہو گی اور اس پر حدود حرم میں ایک بکری کی قربانی لازم ہو گی۔

4۔ اگر حیض شروع ہوجائے تو عمرے پہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں یہ بات ٹھیک نہیں کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے، ہاں عورت ان ایام میں دوسرے اعمال جیسے ذکر وازکار ، دعا میں مشغول ہوجائے، اس کا بہت اجر وثواب ہے۔

5۔ حیض کو روکنا ایک غیر فطری عمل ہے اس لیے اس میں نقصان کا خطرہ لازم ہے۔ حیض میں اللہ تعالیٰ نے خواتین کے لیے کچھ حکمتیں رکھی ہیں، اس کو روکنے کی صورت میں ان حکمتوں کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیے ایسی ادویات جن سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو، ڈاکٹر کے مشورے سے حج وعمرہ کے سفر میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔

“عن عائشة عن النبي ﷺ قال: الحائض تقضي المناسك کلها إلا الطواف بالبیت”.

(إعلاء السنن: ۱۰ ؍ ۳۱۷ )

“عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: نُفِسَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ بِالشَّجَرَةِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ يَأْمُرُهَا أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ”.

(رواه مسلم في الصحيح: 2106)

“ثم ذكر أحكامه بـ (قوله :يمنع صلاة)  مطلقاً، ولو سجدة شكر، (وصوماً) وجماعاً … (و) يمنع حل (دخول مسجد و) حل (الطواف) ولو بعد دخولها المسجد وشروعها فيه”.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار: 1/ 290)

“وإذا أراد الإحرام اغتسل أو توضأ، والغسل أفضل إلا أن هذا الغسل للتنظيف حتى تؤمر به الحائض، كذا في الهداية”.

(الفتاوى الهندية: 1/ 222)

“(ومنها): أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور … (ومنها): حرمة الطواف لهما بالبيت وإن طافتا خارج المسجد . هكذا في الكفاية. وكذا يحرم الطواف للجنب. هكذا في التبيين”.

(الفتاوى الهندية: 1/ 38)

“[تنبيه]نقل بعض المحشين عن منسك ابن أمير حاج: لو هم الركب على القفول ولم تطهر

فاستفتت هل تطوف أم لا؟ قالوا: يقال لها: لا يحل لك دخول المسجد وإن دخلت وطفت أثمت، وصح طوافك وعليك ذبح بدنة. وهذه مسألة كثيرة الوقوع يتحير فيها النساء. اهـ. وتقدم حكم طواف المتحيرة في باب الحيض فراجعه”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 550)”

“(أو طاف للقدوم)؛ لوجوبه بالشروع (أو للصدر جنباً) أو حائضاً (أو للفرض محدثاً ولو جنباً فبدنة إن) لم يعده، والأصح وجوبها في الجنابة، وندبها في الحدث، وأن المعتبر الأول، والثاني جابر له، فلا تجب إعادة السعي، جوهرة. وفي الفتح: لو طاف للعمرة جنباً أو محدثاً فعليه دم ، وكذا لو ترك من طوافها شوطاً؛ لأنه لا مدخل للصدقة في العمرة … (قوله: بلا عذر) قيد للترك والركوب. قال في الفتح عن البدائع: وهذا حكم ترك الواجب في هذا الباب اهـ أي أنه إن تركه بلا عذر لزمه دم، وإن بعذر فلا شيء عليه مطلقاً. وقيل: فيما ورد به النص فقط، وهذا بخلاف ما لو ارتكب محظوراً كاللبس والطيب، فإنه يلزمه موجبه ولو بعذر، كما قدمناه أول الباب”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 523)

:وَلَوْطُهْرًا مُتَخَلِّلًا فِيهَا حَيْضٌ يَمْنَعُ صَلَاةً وَصَوْمًا وَتَقْضِيهِ (لزوما دونھا للحرج)وَدُخُولِ مَسْجِدٍ وَالطَّوَافُ وَقُرْبَانُ مَا تَحْتَ إزَارٍ وَقِرَاءَةُ قُرْآنٍ وَمَسُّهُ وَإِلَّا بِغِلَافِهِ وَكَذَا حَمْلُهُ، وَلَا بَأْسَ بِقِرَاءَةِ أَدْعِيَةٍ وَمَسِّهَا وَحَمْلِهَا وَذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى، وَتَسْبِيحٍ وَأَكْلٍ وَشُرْبٍ بَعْدَ مَضْمَضَةٍ وَغَسْلِ يَدٍ ،وَلَا يُكْرَهُ مَسُّ قُرْآنٍ بِكُمٍّ وَيَحِلُّ وَطْؤُهَا إذَا انْقَطَعَ حَيْضُهَا لِأَكْثَرِهِ وَإِنْ لِأَقَلِّهِ لَا حَتَّى تَغْتَسِلَ”.

(حصفکي، الدرالمختار، 1: 290تا 294، دار الفکر، بيروت)

🔸واللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم : 

قمری تاریخ: 5/7/1440

عیسوی تاریخ:12/3/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں