حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :دوسری قسط

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :دوسری قسط

شرم وحیاء

حضرت عثمان بن عفان ؓ فطری طورپرہی انتہائی شرمیلے تھے،شکل وصورت بھی بہت اچھی اورجاذبِ نظرتھی،اس پرمزیدیہ کہ شرم وحیاء کے غلبے کی وجہ سے چہرے پرہمہ وقت عجیب سی معصومیت چھائی رہتی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کاارشادہے:لِکُلِّ دِینٍ خُلُقٌ وَ خُلُقُ الاِسلَامِ الحَیَاء(ابن ماجہ)ہردین کاایک خاص اخلاق ہواکرتاہے،اوردینِ اسلام کاخاص اخلاق ’’حیاء‘‘ ہے۔یعنی دنیامیں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہرایک کے ماننے والوں اورپیروکاروں کاکوئی خاص مزاج ہواکرتاہے اوران میں ایسی کوئی خاص صفت یاعادت نمایاں ہوتی ہے جوانہیں دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے اورجسے ان کی شناخت سمجھاجاتاہے۔ اسی طرح دینِ اسلام کابھی ایک خاص امتیازی وصف اورایک خاص پہچان ہے،وہ ہے’’شرم وحیاء‘‘۔

رسول اللہﷺکے اس ارشادکی روشنی میں دینِ اسلام میں ’’شرم وحیاء‘‘کی اہمیت ، نیزمسلمان کیلئے اس کی ضرورت کوسمجھ لینے کے بعداب حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں آپﷺکایہ ارشادملاحظہ ہو: أَصْدَقُھُم حَیَائً عُثْمَان(ترمذی)’’سب سے بڑھ کرسچے حیاء دارتوعثمان ہیں‘‘۔

’’حیاء ‘‘کی اس قدراہمیت ، اورپھرحضرت عثمان ؓ کے بارے میں رسول اللہﷺکی طرف سے یہ اتنی بڑی گواہی کہ’’ سب سے بڑھ کرسچے حیاء دارتوعثمان ہیں‘‘اس سے یقینا حضرت عثمان بن عفانؓ کی بڑی منقبت ثابت ہوتی ہے۔مزیدیہ کہ آپ ﷺ کے اس ارشادکی رُوسے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ حضرت عثمان ؓکی حیاء مصنوعی اورنقلی نہیں تھی،محض دکھاوے والامعاملہ نہیں تھا،بلکہ یہ حیاء تصنع اوربناوٹ سے پاک،فطری ، سچی ، اور خالص تھی۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:

کَانَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ مُضطَجِعاً فِي بَیتِي کَاشِفاً عَن فَخِذَیہِ أو سَاقَیہِ ، فاَستَأذَنَ أَبُوبَکر ، فَأَذِنَ لَہ، ، وَھُوَ عَلَیٰ تِلکَ الحَالِ ، فَتَحَدَّثَ ، ثُمَّ استَأذَنَ عُمَرُ ، فَأَذِنَ لَہ، ، وَھُوَ کَذلِکَ ، فَتَحَدَّثَ ، ثُمَّ استَأذَنَ عُثمَانُ ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ وَسَوَّیٰ ثِیَابَہ، ، فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَت عَائِشَۃُ ؛ یَا رَسُولَ اللّہ! دَخَلَ أَبُوبَکر فَلَم تَھتَشَّ لَہ، وَلَم تُبَالِ بِہٖ ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَم تَھتَشَّ لَہ، وَلَم تُبَالِ بِہٖ ، ثُمَّ دَخَلَ عُثمَانُ فَجَلَستَ فَسَوَّیَتَ ثِیَابَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : أَلَا أستَحِيْ مِن رَجُلٍ تَستَحِيْ مِنہُ المَلَائِکَۃُ ۔ (مسلم )

’’رسول اللہﷺایک روزمیرے گھرمیں لیٹے ہوئے تھے اس حالت میں کہ آپ کی ران سے ، یا پنڈلی سے کپڑاکچھ ہٹاہواتھا۔اس دوران ابوبکرؓنے اندرآنے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے انہیں اجازت دی ،وہ اندرآئے اور آپ ﷺ کے ساتھ کچھ گفتگوکی، اس دوران آپ ﷺ اسی کیفیت میں رہے۔اس کے بعدعمرؓنے اندرآنے کی اجازت چاہی، آپ ﷺ نے انہیں بھی اجازت دی ، وہ اندرآئے اور آپ ﷺ کے ساتھ کچھ گفتگوکی،تب بھی آپ ﷺ اسی کیفیت میں رہے۔اس کے بعدعثمانؓ نے اندرآنے کی اجازت چاہی،آپ ﷺ سیدھے ہوکربیٹھ گئے اوراپنالباس بھی درست کیا،حضرت عثمانؓ اندرداخل ہوئے اورکچھ گفتگوکی۔پھرجب یہ حضرات چلے گئے تومیں نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول!ابوبکرؓجب اندرآئے تو آپ نے ان کی وجہ سے کوئی خاص فکرنہیں کی،پھرعمرؓ اندرآئے،ان کی آمدپربھی آپ نے کوئی خاص فکرنہیں کی۔مگر جب عثمانؓ اندرآئے ، تو آپ سنبھل کربیٹھ گئے اوراپنالباس بھی درست کیا؟اس پر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’کیامیں اس شخص سے شرم نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں۔

حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شرم وحیاء کی وجہ سے کیفیت یہ تھی کہ خلوت میں بھی کبھی برہنہ ہوکرغسل نہیں کیاکرتے تھے۔ قبولِ اسلام کے وقت جب رسول اللہﷺکے دستِ مبارک پربیعت کی تھی ، اس کے بعدکبھی زندگی بھراپنے اُس ہاتھ (یعنی دائیں ہاتھ)سے شرمگاہ کونہیں چھوا،اسے ’’شرم وحیاء ‘‘کامظہرکہاجائے؟یارسول اللہﷺ کے ساتھ والہانہ عقیدت ومحبت کااثرکہہ لیاجائے،بہرحال کیفیت یہی تھی۔

خلافت کیلئے انتخاب

خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب ؓ نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعدچھ حضرات کے نام تجویزکرتے ہوئے (جن میں اقرباء پروری کے شا ئبہ سے بچنے کیلئے اپنے بیٹے عبداللہ ، نیزاپنے بہنوئی حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ کوشامل نہیں کیاتھا۔یہ وصیت کی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں‘وہ چھ افرادیہ تھے:

۱۔حضرت عثمان بن عفان ؓ ۔ ۲۔حضرت علی بن ابی طالب ؓ ۔۳۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ۔۴۔حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ ۔۵۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ ۔۶۔حضرت زبیربن العوام ؓ ۔

چنانچہ حضرت عمربن خطاب ؓ کی شہادت کے فوری بعدان چھ حضرات میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنی دستبرداری کااعلان کردیا،البتہ اس عزم کا اظہار کیاکہ وہ اس سنگین ترین معاملے کی مسلسل خودنگرانی کرتے رہیں گے ۔لہٰذااب انہوں نے مسلسل ان پانچ افرادکے ساتھ ملاقاتوں کاسلسلہ شروع کیا،توابتداء میں ہی حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ نے منصبِ خلافت کی عظیم ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی،پھررفتہ رفتہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے اورپھرحضرت زبیربن العوام ؓ نے بھی معذرت کااظہارکیا،جس پرعبدالرحمن بن عوف ؓ مسلسل حضرت عثمان بن عفان ؓ اورحضرت علی بن ابی طالب ؓ سے ملاقاتیں کرتے رہے،لیکن ان دونوں حضرات کی جانب سے کوئی واضح جواب نہ مل سکا، حضرت عمربن الخطاب ؓ کی طرف سے مقررکردہ تین دن کی مہلت تیزی کے ساتھ اختتام پذیرہورہی تھی،تب آخرعبدالرحمن بن عوف ؓ نے مہاجرین وانصارمیں سے اکابرصحابہ کارجحان معلوم کرنے کی غرض سے بارباران کی جانب رجوع کیا،تب اکثریت کارجحان حضرت عثمان بن عفان ؓ کی جانب نظرآیا،جس پرآخریکم محرم سن ۲۴ہجری مسجدنبوی میں نمازکے وقت جب تمام اکابرِصحابہ جمع تھے،حضرت عثمان بن عفان ؓ نیزحضرت علی بن ابی طالب ؓ بھی موجودتھے، تب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے معاملے کی نزاکت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مسلمانوں کیلئے جلدازجلدکسی خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت واہمیت کے بارے میں مختصرتقریرکی،اس بارے میں حضرت عمربن خطاب ؓ کی اس تاکیدی وصیت کاحوالہ بھی دیاکہ ’’یہ اہم ترین معاملہ فقط تین دن کی مدت کے اندرطے پاجاناچاہئے‘‘۔ اورپھراس سلسلے میں اپنی بھرپورکوشش اورجدوجہدکا ، نیزاکابرِ صحابہ کے ساتھ اپنی طویل ملاقاتوں اورمسلسل مشاورت کاتذکرہ بھی کیا،اورپھرفرمایاکہ’’ اس تمام ترکوشش اورتگ ودوکے نتیجے کے طورپرجوصورتِ حال سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اکثریت کارجحان عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ )کی جانب ہے۔

یہ کہنے کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اپنی جگہ سے اٹھے اورحضرت عثمان بن عفان ؓ کے سامنے پہنچ کر ان کے ہاتھ پربیعت کی،اورپھرحضرت علی بن ابی طالب ؓ ، ودیگرتمام مسلمانوں نے بھی بیعت کی،یوں حضرت عثمان بن عفان ؓ کومسلمانوں کے خلیفۂ سوم کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔

توسیعِ مسجدِ نبوی

مدینہ شہرکی آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے نمازیوں کیلئے مسجدِ نبوی ناکافی پڑنے لگی تھی،جس پرحضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس کی توسیع کافیصلہ کیا۔چنانچہ یہ کام مسلسل دس ماہ جاری رہا،اس دوران حضرت عثمانؓ اس مقدس کام کی بذاتِ خودنگرانی کرتے رہے اورشب وروزمصروف رہے،آخراینٹ ، چونے ، اورپتھرکی یہ نہایت خوشنما اور مستحکم عمارت تیارہوگئی۔

فتوحات

خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب ؓ کے زمانے سے عظیم الشان فتوحات کاجوبے مثال سلسلہ چلاآرہاتھا ، اب خلیفۂ سوم کے زمانے میں بھی وہی سلسلہ کافی حدتک جاری رہا، خصوصاًابتدائی چندسالوں میں بڑے پیمانے پرفتوحات ہوئیں،اسلامی لشکربیک وقت ایک جانب ایشیااوردوسری جانب افریقہ میں پیش قدمی کرتارہا،اسلامی ریاست وسیع سے وسیع ترہوتی چلی گئی،طرابلس اورمراکش فتح ہوئے،افغانستان ، خراسان اورترکستان کے بہت سے حصے اسلامی ریاست میں شامل ہوئے ،آرمینیااورآذربائیجان کی فتح کے نتیجے میں اسلامی ریاست کی حدودقوقازاورکوہِ قاف تک جاپہنچیں۔ خلیفۂ دوم کے زمانے میں روئے زمین کی عظیم ترین قوت سلطنتِ فارس کااگرچہ خاتمہ ہوچکاتھا،البتہ وہاں کامفرورفرمانروا ’’یزدگرد‘‘اب بھی مسلسل اِدھراُدھربھاگ دوڑ میں مشغول تھا،اسے جب موقع ملتاوہ مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی کردیتا،یوں وقتاًفوقتاًچھوٹی بڑی مختلف چھڑپوں کی نوبت آتی رہتی تھی ،آخراب خلیفہ ٔ سوم کے زمانے میں ’’مرو‘‘کے مقام پرایک چھڑپ کے دوران وہ ماراگیا،یوں مسلمانوں کے ہاتھوں فارس کی فتح کی اب تکمیل ہوگئی۔

بحری فوج

فوجی خدمات کے شعبے میں سب سے اہم ، نمایاں ، اوریادگاراقدام بحری فوج کاقیام تھا،دراصل عظیم الشان فتوحات کے نتیجے میں اسلامی ریاست کی حدودبہت دوردرازتک پھیل چکی تھیں ، اب ان کی حفاظت بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی ،رومی فوج اگرچہ بہت بڑے پیمانے پرمسلمانوں کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچارہوچکی تھی،تاہم اب بھی رومیوں کوجب اورجہاں موقع ملتاوہ مسلمانوں کے خلاف جارحیت کاارتکاب کرتے رہتے تھے،اکثران کی یہ اشتعال انگیزیاں دوردرازکے علاقوں میں سمندری راستے سے ہواکرتی تھیں۔

اس چیزکے سدِباب کیلئے خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ’’بحری فوج‘‘تیارکی ۔ یوں تاریخِ اسلام میں پہلی باربحری فوج کاقیام عمل میں آیا،جس کی وجہ سے اب خشکی سے نکل کرسمندرکی وسعتوں پربھی مسلمانوں کی بالادستی قائم ہوگئی،اسی بحری فوج کے ذریعے رومیوں کے خلاف کئی تاریخی اورفیصلہ کن قسم کی جنگیں سمندرکے پانیوں میں لڑی گئی، جن کے نتیجے میں متعددچھوٹے بڑے ساحلی شہراورجزیرے مسلمانوں نے فتح کئے، جن میں مشہورتاریخی جزیرہ ’’قُبرُص‘‘ بھی شامل ہے۔

کتابتِ قرآن کریم

خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان ؓ کی دینی خدمات میں اہم ترین اوریادگار خدمت کتابتِ قرآن کریم کیلئے مخصوص رسم الخط کی تعیین ہے ۔ اس کاپس منظرکچھ اس طرح ہے کہ قرآن کریم جوکہ عربی زبان میں ہے ،اس کے بہت سے کلمات اس طرح تحریرکئے گئے تھے کہ انہیں ایک سے زائدطریقوں سے پڑھاجاسکتاتھا،اہلِ زبان کیلئے اس میں کوئی دشواری نہیں تھی،لیکن خلیفۂ دوم اورپھرخلیفۂ سوم کے دورِخلافت میں اسلامی ریاست کی حدود بہت زیادہ وسعت اختیارکرگئی ،غیرعرب دنیاکابہت وسیع رقبہ اسلامی مملکت میں شامل ہوا،جس کے ساتھ ہی وہاں کے باشندے بھی جوکہ غیرعرب تھے بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہوتے چلے گئے،لہٰذاصورتِ حال یہ پیش آئی کہ قرآن کریم کے بہت سے کلمات جواس طرح تحریرکئے گئے تھے کہ انہیں ایک سے زائدطریقوں سے پڑھناممکن تھا ، اب غیرعرب چونکہ ان کلمات کے معنیٰ ومفہوم سے ناواقف تھے لہٰذاان کلمات کی تلاوت کے بارے میں ان میں اختلاف کی نوبت آنے لگی،کوئی ایک طرح پڑھتا،جبکہ کوئی دوسراشخص اسی کلمے کواپنی دانست کے مطابق دوسری طرح پڑھتا،ظاہرہے کہ یہ انتہائی حساس معاملہ تھا،کیونکہ یہ کسی عام کتاب کی بات نہیں تھی، بلکہ یہ توکلام اللہ کامعاملہ تھا۔

سلطنتِ فارس کے ایک دوردرازکے علاقے’’آرمینیا”کے محاذپریہ معاملہ زیادہ شدت اختیارکرگیا۔کیفیت یہ ہوئی کہ سپاہی دن بھرمحاذِجنگ پردشمن کے خلاف برسرِپیکار رہتے،اورپھررات کوجب فرصت کے لمحات میسرآتے تواپنے اللہ سے لَولگاتے،دعاء ومناجات اورتلاوتِ قرآن کاسلسلہ شروع ہوجاتا،ایسے میں متعددقرآنی کلمات کے تلفظ کے حوالے سے ان میں باہم اختلاف کی نوبت آتی،اوریہ چیزان سب کیلئے ذہنی وفکری تشویش کاباعث بنتی،قرآن جوکہ اہلِ ایمان کواتفاق واتحادکادرس دیتاہے،اگرخوداسی قرآن کی تلاوت کے معاملے میں ہی اختلاف کی نوبت آنے لگے ،توسمجھ لیناچاہئے کہ معاملہ کس قدرسنگین اورفوری توجہ طلب ہوگا۔

ان دنوں اُس محاذپراسلامی لشکرکی سپہ سالاری کے فرائض حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ انجام دے رہے تھے،انہوں نے اس صورتِ حال کی نزاکت کومحسوس کرتے ہوئے اس کے فوری تدارک کی ضرورت کوشدت کے ساتھ محسوس کیا،اوراسی غرض سے طویل ترین سفرکی مشقت وصعوبت برداشت کرتے ہوئے وہ مدینہ پہنچے ،جہاں انہوں نے خلیفہ ٔ وقت حضرت عثمان بن عفان ؓ کواس صورتِ حال سے مطلع کرتے ہوئے اس کے فوری تدارک کامطالبہ کیا،جس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کاایک نیانسخہ ایسے رسم الخط میں تحریرکرنے کافیصلہ کیا جس میں وہ تمام کلمات جن کی تلاوت اورتلفظ کے وقت اختلاف کی نوبت آتی تھی،غوروفکرکے بعدانہیں اس طرح تحریرکیاجائے کہ اس کے بعد اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے،اورانہیں فقط اسی طرح پڑھاجاسکے جس طرح پڑھنامقصودہے۔

چنانچہ اس مقصدکیلئے ہنگامی طورپراکابرصحابۂ کرام میں سے چندایسے حضرات پرمشتمل ایک مجلس تشکیل دی گئی جنہیں قرآنی علوم میں بطورِخاص بڑی دسترس اورمہارت حاصل تھی،اورپھران منتخب حضرات پرمشتمل اس مجلس کی سربراہی ونگرانی کی عظیم ترین ذمہ داری جلیل القدرصحابی حضرت زیدبن ثابت انصاری ؓ کوسونپی ، جوکہ عرصۂ درازتک رسول اللہﷺکے مبارک دورمیں’’کتابتِ وحی‘‘کامقدس فریضہ انجام دیتے رہے تھے، اورجواس سے قبل خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورمیں ’’جمعِ قرآن‘‘ کے موقع پرتشکیل دی گئی، مجلس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی بحسن وخوبی فرائض انجام دے چکے تھے۔

مزیدیہ کہ اب کتابتِ قرآن کی غرض سے مخصوص رسم الخط کی تعیین کے اس کام کی خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان ؓ بذاتِ خودبھی نہایت توجہ وانہماک کے ساتھ نگرانی کرتے رہے،بالخصوص یہ کہ آپؓ خودبھی حافظِ قرآن تھے،نیزعہدِنبوی میں عرصۂ درازتک کتابتِ وحی کی مقدس ترین خدمت بھی انجام دیتے رہے تھے،اوریہ کہ قرآن کریم کے ساتھ آپؓ کوخاص شغف بھی تھا۔

چنانچہ انتہائی عرق ریزی اورمحنتِ شاقہ کے بعدمخصوص رسم الخط متعین کیاگیا ، جوکہ ہمیشہ کیلئے ’’رسمِ عثمانی‘‘کے نام سے معروف ہوا، نیزہمیشہ کیلئے امت کااس بات پراجماع منعقد ہوگیاکہ تاقیامت قرآنی کریم کاکوئی بھی نسخہ تحریرکرتے وقت اسی ’’رسمِ عثمانی‘‘کی پابندی لازمی ہوگی۔یوں’’رسمِ عثمانی‘‘کے مطابق قرآن کریم کاایک نیانسخہ تحریرکیاگیا، پھراس کی متعددنقول تیارکی گئیں ،جنہیں مختلف علاقوں اوراقالیم کی جانب ارسال کیاگیا۔

تلاوتِ قرآن جیسے اہم ترین معاملے میں مسلمانوں کواختلاف وافتراق سے بچانے اورانہیں ایک رسم الخط پرمتحدومتفق کرنے کے حوالے سے خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام یقینا’’کتاب اللہ‘‘کی بہت بڑی خدمت تھی ،جسے تاقیامت تمام امتِ مسلمہ پرعظیم احسان کے طورپرہمیشہ یادرکھاجائے گا۔

(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں