حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :پہلی قسط

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :پہلی قسط

رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی ، خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی ولادت رسول اللہﷺکی ولادت باسعادت کے چھ سال بعد مکہ میں ہوئی،قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوامیہ ‘‘ سے تعلق تھا،سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں عبدمناف پررسول اللہﷺکے نسب سے جاملتاہے،مزیدیہ کہ ان کی نانی ’’اُم حکیم‘‘رسول اللہﷺ کے والدگرامی جناب عبداللہ کی جڑواں بہن تھیں۔

حضرت عثمان بن عفان ؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔

حضرت عثمان بن عفان ؓ کی زندگی زمانۂ جاہلیت میں بھی انتہائی شریفانہ تھی، جس کی وجہ سے قبیلۂ قریش میں نیزتمام شہرمکہ میں انہیں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا،اُس دورمیں جب ہرکوئی لہوولعب کادلدادہ اورشراب کاازحدرسیا تھا،ایسے ماحول میں بھی حضرت عثمان بن عفان ؓ کادامن ہمیشہ لہوولعب سے پاک رہا، اوران کے لب جامِ شراب سے ہمیشہ ناآشنا رہے۔

مکہ شہرمیں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے سے قبل ہی حضرت عثمان بن عفان ؓ کی حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے ساتھ خاص دوستی تھی ، دونوں میں بہت گہرے روابط تھے،حضرت ابوبکرصدیق ؓ ، حضرت علی بن ابی طالب ؓ ، اورحضرت زیدبن حارثہ ؓ کے بعدحضرت عثمان بن عفان ؓ چوتھے شخص تھے جنہوں نے دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا، تب ان کی عمرچونتیس سال تھی۔

حضرت عثمان بن عفان ؓ بھلائی میں سب لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے ایک تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ، اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقین الأولین‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔رسول اللہﷺ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کومتعددمواقع پر ’’شہادت‘‘ کی خوشخبری بھی سنائی تھی،اور’’مظلومیت‘‘کی خبربھی دی تھی۔

حضرت عثمان بن عفان ؓ کورسول اللہﷺ کے انتہائی مقرب اورخاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ آپؓ رسول اللہﷺ کے دامادبھی تھے، رسول اللہﷺکی صاحبزادیوں حضرت رقیہ ؓ اورحضرت ام کلثوم ؓ کانکاح ایامِ جاہلیت میں ابولہب کے بیٹوں عتبہ اورعتیبہ سے ہواتھا،آپﷺنے جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ حکم “وَأنذِرعَشِیرَتَکَ الأقرَبِینَ(الشعراء 214)”آپ ﷺ اپنے قریبی رشتے داروں کواللہ کے عذاب سےڈرائیے”کی تعمیل کے طورپراپنے خاندان ’’بنوہاشم‘‘کوکوہِ صفاپرجمع کرکے دینِ برحق کی طرف دعوت دی ، تواس موقع پرابولہب بگڑگیا،اوریوں کہنے لگا: تَبّاً لَکَ ! أمَا دَعَوتَنَا اِلّا لِھٰذا؟(بخاری)(نعوذباللہ) اے محمد! تم ہلاک جاؤ،کیاتم نے ہمیں اسی لئے یہاں بلایاتھا؟

ابولہب کی اس بیہودہ گوئی پرآپ ﷺ انتہائی رنجیدہ ودل گرفتہ ہوئے،جس پرآپ ﷺ کی تسلی ودلجوئی کیلئے تَبّت یَدَا أبِي لَھَب وَتَبَّ الخ … نازل ہوئی۔اس پرابولہب مزید مشتعل ہوگیااوراس نے اپنے دونوں بیٹوں عتبہ اورعتیبہ کوحکم دیاکہ وہ آپ ﷺ کی صاحبزادیوں کوطلاق دے کرگھرسے نکال دیں، چنانچہ انہوں نے ایساہی کیا۔

کچھ عرصہ گذرنے کے بعدآپﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کی شادی اپنے جلیل القدرصحابی حضرت عثمان بن عفان ؓ سے کردی،ان دونوں نے نبوت کے پانچویں سال مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کی،جہاں اللہ نے انہیں بیٹاعطاء فرمایا،اس کے بعدنبوت کے دسویں سال ایک غلط فہمی کے نتیجے میں یہ دونوں میاں بیوی حبشہ سے واپس مکہ چلے آئے اورازسرِنومشرکینِ مکہ کی طرف سے تکلیفوں اوراذیتوں کے اسی سلسلے سے دوچارہوناپڑا،اورپھرنبوت کے تیرہویں سال ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہونے کے بعدمکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔

حبشہ میں قیام کے دوران ان دونوں میاں بیوی کے یہاں جس بیٹے کی ولادت ہوئی تھی ،اب مدینہ میں قیام کے دوران ان کایہ لختِ جگرجب چھ سال کاتھا،ایک روزاپنے گھرکے سامنے کھیل کودمیں مشغول تھاکہ اس دوران اچانک کسی جانب سے ایک لڑاکامرغاآیا اوراس بچے کی آنکھ میں چونچ ماری،جس کی وجہ سے چنددن شدیدزخمی رہنے کے بعدیہ بچہ داغِ مفارقت دے گیا،اس کے بعدحضرت رقیہ کی کوئی اوراولادنہیں ہوئی۔

حضرت رقیہ ؓ ہجرتِ حبشہ کے موقع پراپنی والدہ حضرت خدیجہ ؓ سے دوری اورجدائی کے صدمے کی وجہ سے بیماررہنے لگی تھی، اب اپنے اکلوتے کم سن لختِ جگرکی اس اچانک موت نے انہیں نڈھال کرڈالا،جس پروہ مستقل صاحبِ فراش ہوگئیں، سن دوہجری میں عین غزوۂ بدرکے روزمدینہ میں ان کاانتقال ہوگیا،تب حضرت عثمان بن عفان ؓ خاندانِ نبوت سے رشتہ منقطع ہوجانے پر انتہائی افسردہ ورنجیدہ رہنے لگے،لہٰذا آپ ﷺنے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ کانکاح حضرت عثمان بن عفان ؓ سے کردیا،اسی دوہرے شرف کی وجہ سے وہ ’’ذوالنورین‘‘ (یعنی دونوروں والا)کے لقب سے معروف ہوئے۔

سن پانچ ہجری میں غزوۂ خندق کے بعدجب آپﷺ اپنے رب کی طرف سے غیبی اشارہ ملنے پراگلے ہی سال یعنی سن چھ ہجری میں عمرے کی ادائیگی کی غرض سے مکہ کی جانب عازم سفرہوئے،اس موقع پر آپ ﷺ جب مکہ شہرسے کچھ فاصلے پر’’حدیبیہ‘‘نامی مقام پر پہنچے تومعلوم ہواکہ مشرکینِ مکہ توقتل وخونریزی اورفتنہ وفسادپرآمادہ ہیں ، جس پرآپﷺ نے ان کے ساتھ گفت وشنیدکی غرض سے بطورِسفیرحضرت عثمان بن عفان ؓ کوروانہ فرمایا،حضرت عثمانؓ جب وہاں پہنچے توان لوگوں نے انہیں اپنے پاس روک لیااوریہ خبرمشہورکردی کہ ہم نے عثمان کوقتل کرڈالاہے،تب رسول اللہﷺنے اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا’’عثمان کے خون کابدلہ لینافرض ہے‘‘اورپھراس موقع پرآپﷺ نے اپنے تمام ساتھیوں سے جاں نثاری وسرفروشی کی وہ تاریخی بیعت لی،جسے ’’بیعتِ رضوان‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے،اس موقع پرآپﷺ نے اپناہی ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پررکھتے ہوئے ارشادفرمایا’’یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے‘‘یقینااس سے رسول اللہﷺکے نزدیک حضرت عثمان بن عفان ؓ کی اہمیت اورقدر ومنزلت واضح وثابت ہوتی ہے۔

جبکہ اُدھرشہرمکہ میں ان مشرکین نے حضرت عثمان ؓ کوپیشکش کرتے ہوئے کہا’’ آپ جب عرصۂ درازکے بعدمکہ پہنچ ہی گئے ہیں ، تواب آپ بیت اللہ کاطواف توکرلیجئے‘‘ان کی طرف سے اس پیشکش کے جواب میں حضرت عثمانؓ نے فرمایا: مَا کُنتُ لأفعَل ، حَتّیٰ یَطُوفَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ ۔’’جب تک خودرسول اللہﷺبیت اللہ کاطواف نہیں کرلیں گے اُس وقت تک میں بھی نہیں کروں گا‘‘ ۔یقینااس سے حضرت عثمان بن عفان ؓ کے دل میں رسول اللہﷺکیلئے موجزن بے مثال قلبی تعلق اوروالہانہ عقیدت ومحبت کااظہارہوتاہے۔

دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دورسے ہی رسول اللہﷺحضرت عثمان بن عفان ؓ سے ’’وحی‘‘نیزدیگرضروری اورخاص رازکی باتیں تحریرکروایاکرتے تھے،اورپھراس کے بعدبھی طویل عرصہ تک حضرت عثمانؓ ہی ’’کتابتِ وحی‘‘کامقدس فریضہ انجام دیتے رہے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرمایاکرتی تھیں’’مجھے وہ منظراب بھی بخوبی یادہے کہ رسول اللہﷺ عثمان کواپنے قریب بٹھاکران سے ’’وحی‘‘لکھوایاکرتے تھے‘‘اس کے بعدمزیدفرمایاکرتی تھیں: فَوَاللّہِ مَا کَانَ اللّہُ لِیُنزِلَ عَبداً مِن نَبِیِّہٖ تِلکَ المَنزِلَۃَ اِلّا کَانَ عَلَیہِ کَرِیماً ۔’’اللہ کی طرف سے یقینااپنے کسی ایسے بندے کوہی اپنے نبی کااس قدرخاص قرب عطاء کیاجاسکتاہے کہ جواللہ کے نزدیک اس قابل ہو۔

خشیتِ الٰہیہ

حضرت عثمان بن عفان ؓ کے مزاج پرخشیتِ الٰہیہ کاغلبہ رہتاتھا، رقت طاری رہتی تھی،اکثروبیشترآبدیدہ رہاکرتے تھے،موت ، قبر ، اورفکرِآخرت کاجذبہ غالب رہتا،تلاوتِ قرآن کابہت زیادہ اہتمام کیاکرتے تھے،حافظِ قرآن تھے،خوش الحان تھے،کاتبینِ وحی میں سے تھے۔

تواضع اورعجزوانکسار

چونکہ ابتداء سے ہی بہت زیادہ مالداراورخوشحال تھی، حتیٰ کہ اسی وجہ سے ’’غنی‘‘کہلاتے تھے،لہٰذاخادموںاورغلاموں کی بڑی تعدادہمہ وقت موجودرہاکرتی تھی،لیکن اس کے باوجود اکثراپنے کام کاج خودہی کیاکرتے ،رات کوتہجدکیلئے بیدارہوتے تووضوء کیلئے پانی کاانتظام خودہی کرلیاکرتے،کسی خادم کونہ جگاتے۔

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رَأیتُ عُثمَانَ یَقِیلُ فِي المَسجِدِ وَ ھُوَ یَومَئِذٍ خَلِیفَۃ وَ أَثَرُ الحَصَیٰ بِجَنْبِہٖ ۔’’میں نے عثمان (رضی اللہ عنہ)کومسجدنبوی میں فرش پراس کیفیت میں قیلولہ کرتے دیکھا کہ جسم پرکنکروں کے نشانات نمایاں تھے،حالانکہ وہ اس وقت خلیفہ تھے‘‘۔

یعنی اپنے زمانۂ خلافت کے دوران سادگی وانکسارکایہ عالم تھاکہ مسجدکے فرش پرلیٹے ہوئے دیکھا،نیزیہ کہ جسم میں کنکرچبھے جارہے تھے،جبکہ اس وقت ایشیااورافریقہ کے اکثرحصے پران کی حکمرانی تھی۔

سخاوت وفیاضی

حضرت عثمان بن عفان ؓ نے زمانۂ قبل ازاسلام سے ہی تجارت کواپنامشغلہ اورذریعۂ معاش بنایاتھااورانتہائی امانت ودیانت کے ساتھ تجارت کیاکرتے تھے، لہٰذا کاروبارمیں خوب خیروبرکت اوربہت زیادہ خوشحالی وفراوانی تھی،مکہ کے نامورتاجروں اور مالداروں میں ان کاشمارہوتاتھا،قبولِ اسلام کے بعدہمیشہ دینِ اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی فلاح وبہبودکی خاطرنہایت سخاوت وفیاضی اوردریادلی کے ساتھ اپنامال خرچ کرتے رہے،مسلمان جب ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے تووہاں پینے کے پانی کی سخت قلت اوردشواری کاسامناکرناپڑا،میٹھے پانی کاایک کنواں تھاجوکسی یہودی کی ملکیت تھا، اوروہ پیسے لئے بغیرکسی کوپانی نہیں دیتاتھا،اس وقت عام طورپرمسلمانوں کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ وہ قیمت اداکرکے پانی حاصل کرسکیں،اس پرحضرت عثمان بن عفان ؓ نے اپنی جیبِ خاص سے بیس ہزاردرہم نقداداکرکے وہ کنواں اس یہودی سے خریدلیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔

ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدمسجدِنبوی کی تعمیرکاکام انجام دیاگیاتھا،رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعدادمیں اضافے کی وجہ سے یہ مسجدنمازیوں کیلئے ناکافی ہونے لگی،جس پررسول اللہ ﷺنے ایک روزخطبۂ جمعہ کے موقع پراعلان فرمایا: مَن بَنَیٰ لِلّہِ مَسجِداً بَنَیٰ اللّہُ لَہ، بَیتاً فِي الجَنَّۃ(مسلم )”جو اللہ کیلئے مسجد تعمیرکرے گا، اللہ اس کیلئے جنت میں گھرتعمیرفرمائے گا‘‘۔یہ ارشادِنبوی سنتے ہی حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اپنی جیبِ خاص سے ادائیگی کرکے مسجدسے متصل بہت سے مکانات خریدکراس جگہ کومسجدمیں شامل کردیا۔

غزوۂ تبوک کے موقع پرملکِ عرب خشک سالی کی لپیٹ میں تھا،قحط اورافلاس کے سائے ہرطرف پھیلے ہوئے تھے،اسلامی لشکرکواشیائے خوردونوش کی اتنے بڑے پیمانے پرقلت کا سامنااس سے قبل کبھی نہیں کرناپڑاتھا،اس نازک صورتِ حال میں حضرت عثمان بن عفان ؓ نے غلہ واناج سے لدے ہوئے ساڑھے نوسواونٹ ، سترگھوڑے ، نیزایک ہزار دینارنقدپیش کئے،رسول اللہﷺنے جب یہ منظردیکھاکہ اتنی بڑی تعدادمیں خوراک سے لدے ہوئے اونٹ چلے آرہے ہیں ، توآپﷺ نے اپنے صحابۂ کرام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:’’لوتمہارے پاس بھلائی آپہنچی‘‘۔ اورپھرآپﷺ نے یوں دعاء فرمائی : ’’اے اللہ! میں عثمان سے خوش ہوگیا،توبھی خوش ہوجا‘‘۔

قبولِ اسلام کے بعدہرجمعہ کے دن اللہ کی رضامندی وخوشنودی کی خاطرایک غلام آزاد کیاکرتے تھے،چونتیس سال کی عمرمیں جب مشرف باسلام ہوئے تھے،اس کے بعدسےبیاسی سال کی عمرمیں انتقال تک ،یعنی اڑتالیس سال مسلسل یہی معمول جاری رہا، مزیدیہ کہ بہت سی بیواؤں اوریتیموں کی کفالت ونگہبانی مستقل طورپراپنے ذمے لے رکھی تھی،غرضیکہ حضرت عثمان بن عفان ؓ دینِ اسلام کی نشرواشاعت نیزضرورتمند مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے ہمیشہ دل کھول کراوربڑے پیمانے پرمالی تعاون کرتے رہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں