حضرت زبیربن العوّام رضی اللہ عنہ:پہلی قسط

حضرت زبیربن العوّام رضی اللہ عنہ:پہلی قسط

تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت زبیربن العوامؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔آپؓ کاتعلق مکہ میں قبیلۂ قریش کے خاندان ’’بنواسد‘‘سے تھا،ان کی والدہ صفیہ بنت عبدالمطلب رسول اللہﷺکی پھوپھی تھیں،یعنی آپؓ رسول اللہﷺکے پھوپھی زادبھائی تھے۔

حضرت زبیربن العوامؓ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی صاحبزادی حضرت اسماءؓکے شوہرتھے۔اس اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے ہم زلف بھی ہوئے ۔

حضرت زبیربن العوامؓ کی ولادت مکہ شہرمیں ہوئی ،حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے بیٹے ’’محمد‘‘اکثریوں کہاکرتے تھے کہ’’میرے والدطلحہ،حضرت زبیربن العوام،حضرت علی بن ابی طالب، اورحضرت سعدبن ابی وقاصؓم اجمعین کی ولادت مکہ شہرمیں ایک ہی سال ہوئی تھی۔

حضرت زبیربن العوامؓ بھی بھلائی میں لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا…یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں، اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔

ظہورِاسلام سے قبل ہی حضرت زبیربن العوامؓ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ کے مابین خاص قریبی تعلقات اورگہرے مراسم تھے،لہٰذااسی دوستی کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ نے دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دنوں میں انہیں رسول اللہﷺکی بعثت کے بارے میں آگاہ کیا،اورانہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی ،جس کے نتیجے میں حضرت زبیررضی اللہ عنہ اس دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مشرف باسلام ہوگئے۔

آپؓ کویہ شرف حاصل تھا کہ انہوں نے دینِ اسلام کی رفعت وسربلندی،نیزپیغمبرِاسلام کی حمایت ونصرت کی خاطرسب سے پہلے اپنی تلواربلندکی، مکہ شہرمیں رسول اللہﷺکی بعثت مبارکہ کے بعدبالکل ابتدائی دن تھے کہ ایک روزیہ صورتِ حال پیش آئی کہ مشرکینِ مکہ میں سے کسی نے یہ افواہ اُڑادی کہ (نعوذباللہ) محمدﷺقتل کردئیے گئے ہیں،اُس وقت حضرت زبیرؓبا لکل ہی نوعمرتھے،لیکن اس کے باوجودجب انہوں نے یہ خبرسنی،توان سے رہانہ گیا،اور اپنی کم سنی کے باوجود ننگی تلوارلہراتے ہوئےرسول اللہﷺکی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے،آخرایک جگہ جب آپﷺ سے ملاقات ہوئی اورآپﷺبخیروعافیت دیکھا تو مطمئن ہوگئے۔

البتہ رسول اللہﷺنے جب ان کی یہ کیفیت دیکھی تو آپﷺ نے وجہ دریافت فرمائی،آپؓ نے وجہ بیان کرتے ہوئے اُس افواہ کے بارے میں بتایا، جس پرآپﷺنے انہیں دعائے خیردی۔

دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پرتھا،تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہﷺکے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت زبیربن العوامؓ بھی شامل تھے،پھرنبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہوا، تب دیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت زبیربن العوامؓ بھی مدینہ منورہ آپہنچے۔

ہجرتِ مدینہ کے موقع پررسول اللہﷺودیگرمسلمانوں کی مکہ سے مدینہ تشریف آوری کے فوری بعدایک تکلیف دہ صورتِ حال یہ پیش آئی کہ کافی عرصے تک ان مہاجرین حضرات کے ہاں کسی بچے کی ولادت نہیں ہوئی،مدینہ شہرمیں چونکہ مقامی عرب آبادی کے علاوہ یہودی بھی بڑی تعدادمیں آبادتھے ،جوکہ صدیوں سے نسل درنسل وہیں مستقل طورپرمقیم تھے،اور رسول اللہﷺ اور صحابہ کی مدینہ آمدپرسخت نالاں تھے،اوراتفاق یہ کہ جادوٹونے میں انہیں بڑی مہارت بھی حاصل تھی ، یہی ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا، اوراس حوالے سے انہیں بڑی شہرت بھی حاصل تھی،چنانچہ جب کافی عرصہ اسی کیفیت میں گذرگیاکہ مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے کسی مسلمان گھرانے میں کسی بچے کی ولادت نہیں ہوئی،تو ان یہودِمدینہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ افواہ پھیلادی کہ ’’ہم نے ان مسلمانوں پرجادو کردیا ہے ، اور یوں ہم نے جادوکے ذریعے ان کی مستقل نسل بندی کردی ہے،لہٰذااب آئندہ ان کے ہاں کوئی اولادنہیں ہوگی،اوریوں رفتہ رفتہ ان کاخاتمہ ہوجائے گا‘‘۔

مسلمان چونکہ راسخ العقیدہ تھے،لہٰذااس افواہ پرانہوں نے کا ن نہیں دھرے، لیکن بہرحال وہ بھی انسان ہی تھے، طبعی طورپرانہیں بھی اولادکی خواہش تھی،لہٰذاجوں جوں وقت گذرتاگیا،یہودکی طرف سے یہ افواہ تقویت پکڑتی گئی ،اورمسلمانوں کیلئے یہ چیز تشویش کاباعث بنتی چلی گئی۔

آخرکافی عرصہ گذرجانے کے بعدحضرت زبیربن العوامؓ اوران کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماءؓ بنت ابی بکرالصدیق ؓ کواللہ نے بیٹے سے نوازا،جس کانام عبداللہ رکھاگیا،چونکہ تمام مہاجرین حضرات کی مدینہ آمدکے بعدیہ پہلانومولودتھا،لہٰذااس کی ولادت رسول اللہ ﷺکیلئے، اس بچے کے والدین کیلئے، نیزتمام مسلمانوں کیلئے انتہائی مسرت و شادمانی کا سبب بنی،اس روزمسلمان دن بھرخوشی کااظہارکرتے رہے ،ایک دوسرے کو مبارکباددیتے رہے،اوراس روزمدینہ کے گلی کوچے اللہ اکبرکی صداؤں سے گونجتے رہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں