حضرت ذوالکفل علیہ السلام

 قرآن کریم میں حضرت ذولاکفل علیہ السلام کا ذکر 3  دسورتوں میں آیا ہے  دونوں سورتوں میں صرف نام  مذکور ہے  ، کسی قسم   کے  حالات کا  تذکرہ نہیں ہے ۔

 سورۃ الانبیاء میں ہے وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ ﴿٨٥﴾

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل، (علیہم السلام) یہ سب صابر لوگ تھے

 سورۃ ص  میں ہے  : وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِّنَ الْأَخْيَارِ ﴿٤٨﴾

اسماعیل، یسع اور ذوالکفل (علیہم السلام) کا بھی ذکر کر دیجئے۔ یہ سب بہترین لوگ تھے۔

 حضرت ذوالکفل  نبی ہیں یا نہیں ؟

 قر آن کریم میں ان کا ذکر  انبیاء کرام کے ساتھ  آنا اور تعریف  وتوصیف  کے کلمات  ان کے  متعلق فرماتا  جس سے معلوم  ہوتا ہے کہ وہ بھی پیغمبر  تھے اور یہی مشہور  ہے ۔ یعنی  لوگوں  کے خیال میں وہ نبی نہ تھے   بلکہ صالح عدل وانصاف والے دانا شخص تھے ۔

 حضرت  ذوالکفل کی وجہ تسمیہ  :۔ حضرت مجاہد  ؒ  سے روا یت  کیاہے کہ وہ نبی  نہ تھے بلکہ نیک صالح  انسان تھے ۔ حضرت ذوالکفل  ؑ نے اپنی قوم کے معاملات نمٹانے اور ان کے درمیان  عدل وانساف  قائم  کرنے کی ذمہ داری  اٹھائی تھی اوراس  وجہ سے آپ کا نام  حضرت ذوالکفل  ” کفالت  کرنے والا ” پڑگیا۔

 مختلف آراء :۔

 حضرت ذوالکفل  ؑ کے بارے میں مختلف  آراء پائی جاتی  ہیں ۔ مثلا ً حضرت عبداللہ  بن عباس  رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ  اشعری  ؒ انہیں  ایک   نیک مرد قرار  دیتے ہیں جبکہ  شاہ عبدالقادر  ؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت  ذوالکفل ، حضرت ایوب علیہ السلام  کے  بیٹے تھے  ایک شخص کے  ضامن ہوکر کئی برس قید  رہے  ۔ ( موضح القرآن سورۃا لانبیاء )

صحیح قول : راجح قول  یہ ہے ہ آپ ع ایکاسرائیلی نبی تھے اور عہد عتیق میں آپ کا نام  حزقی ایل نبی  آیاہے ۔ آپ ؑکا تعارف  صحیفہ  حزقی  ایل  کی ابتدائی س آیتوں میں آیاہے ۔ اپ کا وطن عراق تھا ۔ اسرائیلی حساب سے نبوت  سے سرفراز  562 ق م  میں ہوئے

قرآن نےآپ کی صفت صابر اور نیک  بیان کی ہے  جس سے  معلوم ہوتا  ہے  آپ کو خاص مخالف  حالات  پیش آئے  اور آپ ؑ ان میں  ثابت قدم  رہے  ۔

 حضرت یسع ؑ کی خلافت : تورات  اور اسلامی تاریخ  ھضرت ذوالکفل  کے   حالات وواقعات  پر   خاموش ہےالبتہ  ابن جریر  نے مشہور   مفسر تابعی  مجاہد ؒ  سے ان کے  متعلق  ایک قصہ نقل کیا ہے ۔

” جب اسرائیل  نبی حضرت الیسع ؑ بہت بوڑھے  ہوگئے تو ایک دن  ارشاد فرمایا۔ کاش   میں کسی  آدمی کو اپنی زندگی میں   اپنا خلیفہ  بناجاتا۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جمع کیا اور  فرمایا : کون  ہے  جو میری تین باتوں  پر عمل پیرا  ہو اور میں اس کو اپنا خلیفہ  بناؤ ۔ جو دن بھر  روزہ رکھے  رات کو شب بیدار  رہتا  ہو، غصہ  نہ کرتا ہو، یہ سن کر  ایک شخص کھڑا ہوا جو عام  سا آدمی نظر  آتاتھا۔ اس نے کہا میں اسی خدمت  کے لیے  حاضر ہوں  حضرت الیسع ؑ نے اپنی  تینوں  شرطیں  دوبارہ  بیان کیں اور دریافت  کیاپابندی کروگے  ۔ اس نے  جواب دیا ” بیشک  “۔ دوسرے  دن بھر س حضرت الیسع  ؑ نے  لوگوں سے  پوچھا۔ وہی  شخص پھر کھڑا  ہوا اور خود کوا س شرطوں  کے لیے پیش کیا۔ تب حضرت الیسع ؑ نے اس کو اپنا  خلیفہ بنادیا۔

حضرت ذوالکفل  اور ابلیس :۔  

حضرت الیسع  کے خلیفہ  کا یہ دستور تھا کہ وہ دن رات  میں صرف  دوپہر  کو تھوڑی  دیر قیلولہ  کیاکرتا  ۔ راوی کہتے ہیں  : ایک دن  ابلیس بوڑھے  ضعیف  کی شکل میں آپ کے پاس  آیا جب   آپ ؑ دوپہر  میں آرام  فرمارہے تھے ۔ شیطان نے دروازہ  کھٹکھٹایا ۔  آپ ؑ نے پوچھا  کون ہے  ۔ شیطان  نے کہا ” ایک کمزور  مظلوم بوڑھا  آپ ؑ نے دروازہ  کھول دیا ۔ اور حال  دریافت  کیا۔ بوڑھے  ( شیطان)  نے اپنے  اوپر اپنی  قوم کی ظلم  کی داستان  سنانی شروع کی اور اتنا طویل  دیاکہ آرام  کا وقت ختم ہوگیا۔

آپ ؑ نے فرمایا  : ٹھیک  ہے جب میں شام  کو مجلس میں بیٹھوں گا  تو تمہارا  حق دلوادوں گا ” شیطان  چلاگیا لیکن شام کو مجلس میں نہ آیا ۔ پھر صبح  بھی مجلس میں نہ آیا۔ جب  آپ دوپہر  میں آرام  کے لیے   لیٹے تو دروازہ  کھٹکھٹایا ۔  آپ  ؑ نے پوچھا  کون ہے ” کہا کہ میں وہی  ضعیف بوڑھا  ہوں ۔ آپ ؑ  نے دروازہ کھولا اور پوچھا  تو کل کیوں نہ آیا۔ ( شیطان  ) نے جواب دیا ” میرے  قبیلے  کے لوگوں کو پتا لگ گیا  تھا اس لیے  انہوں نے میرا حق دینے کا وعدہ  کیامگر  جب آپ  ؑ  نے مجلس برخاست  کی تو اپنی  بات سے منکر  ہوگئے  ۔ آپ ؑ نے فرمایا۔ اچھا  شام کو آجانا  ۔ا س طرح  دوسرے دن  بھی آرام  نہ کرسکے ۔ پھر شام  تو  مجلس میں انتظار  کرتے رہے  مگر وہ نہ آیا ۔ آپ ؑ  پر نیند کا غلبہ  بڑھ رہا تھا تیسرے دن  دوپہر  کے وقت س آپ ؑ نے  اپنے گھروالوں  کو تاکید کی               کہ قیلولہ  کے وقت  دروازہ  ہر گز نہ کھولیں۔

خلیفہ ابھی  لیٹے ہی تھے  کہ ابلیس بوڑھے کی شکل میں آموجود ہوا اور دروازہ  پر دستک دی  اندرسے جواب ملا         کہ  آج خلیفہ  کا حکم ہے  کہ کسی کے لیے  دروازہ نہیں کھولا جائے گا۔

اہل خانہ نے دیکھا کہ  باہر  کا دروازہ  بند  ہونے   کے باوجود  وہ  شخص اندر  موجود ہے  اور خلیفہ  کے کمرہ  کے دروازے  پر دستک  دے رہاہے ۔ خلیفہ   نے دروازہ  کھولا اور گھروالوں  سے کہا: میں نے تمہیں  منع کیاتھا دروازہ نہ کھولنا پر جب  باہر  کے دروازے  پر نظر پڑی  جو بند تھا تو حقیقت  سامنے آئی  اور ابلیس کو مخاطب  کر کے کہا  ” تو ابلیس ہے ” ابلیس نے کہا ”  ہاں تو نے مجھے  ہر طرح  سے تھکادیا  میری کوشش تھی کہ  تجھے  ہر  طرح  غضبناک  کردوں  مگر  کامیاب  نہ ہو سکا۔چنانچہ  اس واقعہ  کی بناء پر  اللہ تعالیٰ  نے اس کو  حضرت ذوالکفل  کے نام سے مشہور  کردیا۔ اس لیے کہ اس نے جن شرائط  کا حضرت  الیسع ؑ سے تکفل کیاتھا ا س کوپورا  کر دکھایا۔ ( تفسیر ابن  کثیر  جلد 3 ص 190۔191)

اسلام  کا امتیازی  وصف  یہ ہے کہ تمام  نبیوں کو تسلیم  کیاجائے جن کا ذکر  قرآن  نے  کیاہے  یا جن کا ذکر  نہیں فرمایا ۔احادیث  یا روایات  سے ثابت  ہے ان کے  بارے میں  ہمارا عقیدہ  ہے کہ  ہم انہیں  تسلیم  کرتے ہیں ۔ا ور  ایمان لاتے  ہیں اور جن ہستیوں  کے بارے میں  واضح نہیں ہے  کہ وہ نبی تھے یا ولی ، ان پر  بھی   ہمارا موقف   یہی ہے  جو ان کی حیثیت  ہے ہم ان پر ایمان  لائیں ۔

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         

اپنا تبصرہ بھیجیں