حیلہ اسقاط کی شرعی حیثیت

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ بعض علاقوں میں رواج ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کی تدفین سے پہلے یا بعد تدفین حیلہ اسقاط کے نام پر کچھ تقسیم کیا جاتا ہے،جس میں بسا اوقات نقدی،بسا اوقات مٹھائی اور کبھی خشک میواجات ،مثلاً:کھجوریں،کشمش وغیرہ تقسیم کیے جاتے ہیں۔سوال یہ کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

زینب

اسلام آباد

الجواب بعون الملک الوھاب

حیلہ اسقاط یا دورجس کی اجازت فقہاء نے بوقت مجبوری دی ہے وہ حیلہ اسقاط ان طریقوں سے یکسر مختلف ہے جو آج کل مختلف علاقوں میں رائج ہیں۔تمہید کے طور جائز حیلہ اور ناجائز حیلہ میں فرق کے ساتھ ساتھ پہلے حیلہ اسقاط کا جائز طریقہ اور پھر اس کی شرائط کو بیان کیا جاتا ہے۔ 

ایک حیلہ نا جائز ہے اور ایک جائز ہے۔وہ حیلہ جو کسی امر شرعی کے ابطال کے لیے کیا جائے وہ ناجائز و حرام ہے۔

{وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ }(163)

لیکن اگر کسی امر شرعی کے حصول کے لیے کوئی حیلہ کیا جائے تو وہ مباح اور جائز ہے۔ اس کی نصوص میں متعدد مثالیں ملتی ہیں۔

{وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ ۔۔۔۔}

(ص/38)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے حضر ت ایوب ؑ کو اپنے قسم سے نکلنے کے لیے حیلہ کرنے کا حکم دیا۔کہ اپنی بیوی کو صرف 100 تنکے مارے تو قسم پوری ہو جائے گی۔

{فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ} (یوسف/76)

اس آیت مبارکہ میں اس حیلہ کا ذکر ہے جس میں یوسف ؑ نے اپنے بھائی کو اپنے پاس روکنے کے لیے کیا تھا۔اور اللہ تعالی فرما رہے ہیں كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ۔

“فان الحیل فی الاحکام المخرجۃ عن الامام جائزۃ عند جمھور العلماء۔۔۔۔۔”

(المبسوط للسرخسی:کتاب الحیل،الجزء 30،ص209)

حیلہ اسقاط کی جائز صورت کی اصل ، کتب شریعت میں صرف اس قدر ہے کہ اگر میت نے کوئی مال نہیں چھوڑا اور اس کے ذمہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ واجب تھا،یا مال تو چھوڑا ہے  لیکن ایک تہائی حصہ فراغت ذمہ کے لیے کافی نہیں تھا، یا فسق اور جہل کی وجہ سے وصیت نہیں کیا تو ورثا وغیرہ اس کی طرف سے باقاعدہ طور پر حیلہ اسقاط کر سکتے ہیں۔اور کیونکہ یہ حیلہ امر شرعی (امور واجبہ کے ذمہ سے سقوط کے لیے بوقت مجبوری )کیا جاتا ہے ،لہٰذا یہ جائز اور مباح حیلہ کی قسم سے ہے۔ 

فقہا نے اس کے ادا کرنے کی یہ صورت بتائی ہے کہ صوم و صلوۃ کے فدیے کی مجموعی مقدار ،مثلاً: 15000 روپے بنتی ہے اور ولی میت کے پاس5000 نقد ہے جو وہ تبرعاً اپنے مال سے ادا کرتا ہے،یا اس کے پاس کچھ نہیں مگر اس نے 3000 قرض لے لیا اور اس کو میت کے قضا شدہ نماز روزوں کے فدیہ میں دینا چاہتا ہے تو یوں کرے کہ یہ تین ہزار روپے کسی فقیرکو دیدے اور پھر وہ فقیر اپنی جانب سے اسی ولی میت کو ہبہ کردے اور ولی میت بھی قبضہ کرلے۔اس کے بعد پھر ولی میت اسی قدر نمازوں ،روزوں کے بدلے میں وہ روپے فقیر کو دیدے اور فقیر پھر ولی میت کو ہبہ کرکے قبضہ کرادے وہکذا یہاں تک کہ میت کے ذمہ جس قدر نمازیں،روزے تھیں ان سب کا فدیہ ادا ہوجائے۔پھر قسم کے کفاروں اور قربانی کے بدلے میں اسی طرح ادل بدل کریں اور جب تمام حقوق واجبہ سے فراغت ہو تو آخر میں وہ فقیر اس رقم کو لے جائے۔ یا اگر ولی میت کو آخری دفعہ بھی ہبہ کردیا ہے تو ولی میت کو مناسب ہے کہ یہ کل یا اس میں سے کچھ فقیرکو بھی دیدے۔یہ ایک حیلہ ہے جو میت کے مال نہ چھوڑنے اور اولیائے میت کے محتاج ہونے کی صورت میں میت کے اوپر سےحقوق واجبہ کا بوجھ اتارنے کے لیے فقہاء نے تجویز فرمایا ہے۔

حاصل یہ ہےکہ مجوزہ حیلہ اسقاط میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں:

1) میت اور ورثا کا غریب ہونا کہ ثلث مال میں سے فدیہ ذمے سے ساقط نہ ہوسکتا ہو۔ 

2) میت کے مال میں سے اگر کیا جائے تو تمام بالغ ورثا اس پر دل سے راضی ہوں۔

3) اگر کوئی نابالغ وارث بھی ہے تو اس کے حصے میں سے اس رقم سے کوئی کمی نہ ہونے پائے ،بلکہ جو بالغ ورثا یہ حیلہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے حصوں سے ادا کریں۔ 

4) جس کو یہ مال دے رہے ہیں وہ مستحق ہو۔ 

5) اس مستحق فقیر کو اس مال کا مالک بناکر اس پر قبضہ دیا جائے۔

6) جس فقیر کو دیا جاتا ہے اس کا اپنی مرضی اور دلی رضا مندی سے اس مال کا میت کے ورثا کو ہبہ کرنا بھی ضروری ہے۔اس پر کوئی زور زبردستی نہ کی جائے۔

“لومات و علیہ صلوات فائتۃ واوصیٰ بالکفارۃ یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر کالفطرۃ وکذا حکم الوتر والصوم‘ وانما یعطی من ثلث مالہ‘ ولو لم یترک مالا یستقر من وارثہ نصف صاع مثلاً و یدفعہ‘ الفقیر ثم یدفعہ الفقیر للوارث ثم و ثم حتی یتم ( قال فی الشامیہ) ثم ینبغی بعد تمام ذالک کلہ ان یتصدق علی الفقراء بشئ من ذالک المال او بما اوصیٰ بہ المیت ان کان اوصیٰ”

( رد المحتار مع الدر المختار: ۲/۷۴ ط سعید)

“فی الھندیۃ:” اذا ارادان یؤدی الفدیۃ عن صوم ابیہ اوعن صلوٰتہ وھوفقیر فانہ یعطی منوین من الحنطۃ فقیراثم یستوھبہ ثم یعطیہ ھٰکذا الی ان یتم ۔”

((کذا فی الفتاویٰ السراجیۃ اھ ص ا۲۶۰ج ۷

“وإن لم يترك مالا تستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى المسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا ولو قضاها ورثته بأمره لا يجوز وفي الحج يجوز”

(البحر الرائق :کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت،ص 33)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مروجہ حیلہ اسقاط کے جتنے طریقے ہیں ان کو مذکورہ بالا شرائط پر پرکھنا ہوگا،اگر یہ شرائط پائی جائیں تو جائز ہوگا اور اگر ان میں سے کوئی بھی شرط کم ہوگی تو وہ ناجائز ٹھہرے گا۔

یہ بات بھی مد نظر رہے کہ آج کل حیلہ اسقاط کے جتنے بھی طریقے مختلف علاقوں میں رائج ہیں، ان میں موجود مختلف مفاسدو بدعات اور جواز کی شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے تقریباً تمام بڑے دار الافتاؤں نے ان کے عدم جواز پر فتوی دیا ہے۔

(کفایت المفتی :9/100،جواہر الفقہ:1/526،فتاوی قاسمیہ:3/52،جامعۃ العلوم الاسلامیۃ: سوال : 143101200431)

سوال میں مذکور طریقے میں بھی مذکورہ بالا شرائط مکمل نہیں پائی جارہیں جس کی وجہ سے اس کو ناجائز کہا جائے گا۔

“عن سعد بن ابراہیم سمع القاسم قال: سمعت عائشۃ ؓ تقول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو رد۔”

(مسند احمد بن حنبل ۶/۱۸۰، رقم : ۲۵۹۸۶، ۶/۲۵۶، رقم:۲۶۷۲۱) 

فقط ۔واللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت ممتاز عفی عنھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی

1۔6۔1439ھ/16۔2۔2018

اپنا تبصرہ بھیجیں