ہندو کے ہاتھ کا پکا ہواکھانا کھانےاوراپنے برتن میں ان کو کھانا دینے کا حکم

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۶۸،۶۹﴾

سوال:- 1.اگر پڑوس میں ہندو رہتے ہوں تو ان کے گھر کی پکی ہوئی چیز کھا سکتے ہیں؟

سوال:- 2۔اگر وہ ہمارے گھر آ ئیں تو اپنے استعمال کے برتنوں میں ان کو کھانا دے سکتے ہیں؟

جوا ب : ( 1)۔۔ہندو کے گھر کا کھاناکھانے کی گنجائش ہے بشرطیکہ پکانے اور پیش کرنے کے برتن کےنا پاک ہونے کا یقین نہ ہو۔ البتہ ان کے یہاں کا گوشت کھانا جائز نہیں ،الا یہ کہ یقین ہو کہ وہ کسی مسلمان کا ذبیحہ ہے اور جو قرآن میں” انما االمشرکون نجسا “کہا گیا ہے اس سے مراد ظاہری ناپاکی نہیں بلکہ عقائد کی باطنی ناپاکی مراد ہے۔ان کا ظاہر اور برتن وغیرہ اسی وقت ناپاک شمار ہوں گے جبکہ ان پر ناپاکی لگنے کا یقین ہو۔

البتہ دوسرے کفار کی بہ نسبت ہندو کچھ غلیظ الطبع اور نجاست کے ساتھ زیادہ آ لودہ رہتے ہیں اس لیے ان کی پکائی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنا اولی اور بہتر ہے لیکن نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔

(2)۔اگر وہ گھر آ ئیں تو اپنے برتنوں میں کھانا دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کافروں کے ساتھ حسن سلوک اور مدارات کے طور پر اس طرح کے معاملات رکھنا تو درست ہے اور اس میں ان کو اپنے اخلاق سے متاثر کر کے دین ِ حق کی طرف بلانے کی نیت ہونی چاہیے،لیکن کفار کے ساتھ زیادہ میل جول اور ایسی دوستی رکھنا جس سے اپنی دینی حمیت متاثر ہونے کا اندیشہ ہو ،جائز نہیں۔

( خلاصہ الفتاویٰ:4/346کتاب الکراھیہ)

لما قال العلامہ طاہر بن عبد الرشید البخاری :والاکل والشرب فی اوانی المشرکین مکروہ ٬ولا باس بطعام المجوس الا ذبیحتہم وفی الاکل معھم عن الحاکم عبد الرحمن ان ابتلی بہ المسلم مرۃ او مرتین٬ لا باس بہ٬ اما الدوام علیہ فمکروہ 

(العالمکیریہ: 4/277) 

ولا باس بطعام المجوس کلہ الا الذبیحہ، فان ذبیحتہم حرام ،ولم یذکر محمد الاکل مع المجوس ومع غیرہ من اھل الشرک انہ ھل یحل ام لا ،وحکی عن الحاکم الامام عبد الرحمن الکاتب : ان ابتلی بہ المسلم مرۃ او مرتین، واما الدوام علیہ،فیکرہ،کذا فی المحیط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں