اکراہ بالغیرسےطلاق واقع نہیں ہوتی

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:188

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں مسمی شاہ فیصل مضافات گلآشن بونیر قتیب نیو مظفر آباد کالونی لانڈھی نے اپنی بیوی کو تحریری طلاق دی ہے 2012/08/29کو طلاق لکھتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی ۔طلاق میں نے مجبوری کے عالم (کیفیت )میں دی تھی وہ درجہ ذیل ہیں۔

میں نے پسند کی شادی کی تھی جو کہ میرے ابو کو پسند نہیں تھی میرے ابو نے اپنے بھائی کی بیٹی سے میرا رشتہ طے کیا تھا میرے ابو نے بولا کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تو میں تمہیں بخشوں گا نہیں اور میں خود کو مار دوں گا ۔ابو نے بولا کہ میرے طلاق نہ دینے سے ہمارے بیچ(درمیان میں) دشمنی شروع ہوجائے گی ۔ میں پریشانی کے عالم میں مفتی محمد حنیف صاحب جو ہمارے قریب رہتے تھے ان کے پاس گیا انہوں نے مکمل بات سننے کے بعد مجھ سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بھی بیوی بھی تمہارے نکاح میں رہے اوار تمہارے ابو بھی سلامت رہیں تو پھر تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور لکھتے وقت ایک طلاق کی نیت کر نا اور میں نے ان کو بولا کہ میری بیوی گاؤں میں ہے ایک طلاق دے کر بھی رجوع نہیں کر پاؤں گا انہوں نے بولا قولی رجوع کر لینا پھر میں نے اپنی بیوی کو فون پر بتایا کہ میں نے مفتی صاحب سے مشورہ کرلیااور انہوں نے یہ راستہ بتایا ہے کہ ایک طلاق دے دو اور پھر قولی رجوع ایک دو دن کے اندر کرلینا اس طرح تمہارا خاندان فساد اور شر سے بھی بچ جائے گا اور تمہاری بیوی کا نکاح بھی تمہارے ساتھ نہیں ٹوٹے گا۔ اگر میں اپنی بیوی کو تحریری طلاق نہیں لکھتا تو یقیناً میرے ابو خود کو گولی مار دیتے ۔اس طرح مجبور ہو کر میں نے طلاق نامہ تحریر کیا اور دل میں ایک طلاق تصور کی تھی اور پھر اسی دن میں نے اپنی بیوی کو قولی رجوع دو گواھوں کے سامنے کیا اور اس نے قبول بھی کر لیا ۔جب طلاق نامہ کی تحریر اس کے گھر پر پہنچی تو اس نے گھر والوں کو میرا ماجرہ سنا یا اور کہا کہ میرے شوہر اپنے ابو کو راضی کر کے مجھے لینے آئیں گے۔گاؤں میں ہماری دشمنی تھی اور اس کے بھائی سے بھی میری جان کو خطرہ تھا اب جبکہ صلح ہوگئی ۔میرے ابو بھی راضی  ہو گئے تو میں اپنی بیوی کوگاؤں سے لانے جارہا تھا تو لوگوں یعنی دشمنوں نے کہا کہ تم نے اگر ایک طلاق بھی دی ہو تواب نو مہینے کے بعد وہ تم پر حرام ہے ۔گاؤں مردان اور کراچی کی دوری اور جان جانے کے ڈر سے میں فعلی رجوع سے قاصر رہا ۔کیا میر ا قولی رجوع مقبول ہے ۔براہ کرم از روئے شریعت صحیح مسئلہ مدلل فرما کر ماجور ہوں گے ۔

الجواب حامداً و مصلیاً

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعتاً درست ہے کہ آپ کے والد نے آپ کو طلاق دینے پر مجبور کیا اور آپ کی بیوی کو طلاق نہ دینے کی صور ت میں واقعتاً اس نے خود کو مار نے کی دھمکی دی اور آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ اگر آپ ایسا نہ کرتے وہ خود کو مارنے کی کوشش کرتے تو یہ صورت اکراہ کی ہے اور اکراہ کی حالت میں تحریری طور پر طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی لہذا ایسی صور ت میں منسلکہ طلاق نامہ کی رو سے آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر ایسی صورتحال نہیں تھی بلکہ والد کا محض دباؤ تھا اور اس دباؤ کی بناء پر آپ نے طلاق دی ہے تو منسلکہ طلاق نامہ میں ذکر کردہ الفاظ “میں اسے طلاق دیتا ہوں اور اپنے حق سےاسے آزاد کرتا ہوں” کی رو سے آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی لہذا اس میں رجوعنہیں ہو سکتا البتہ دونو ں کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح نئے مہر کے ساتھ ہو سکتاہے اور آئندہ کے لیے آپ صرف دو طلاقوں کا اختیار رہے گا اس لیے آئندہ طلاق کے معاملہ میں بہت احتیاط ضروری ہوگئ

فی البحر الرائق8/81: و الا کراہ بحبس الوالدین و الاولاد لا بعد اکراھا لانہ لیس باکراہ و لا یعدم الرضا بخلاف حبس نفسہ و فی المحیط و لو اکرہ بحبس ابنہ او عبدہ علی ان یبع عبدہ او یھبہ ففعل فھو اکراہ استحساناً و کذا فی الاقرار ووجھہ ان الانسان بتضرر بحبس ابنہ او عبدہ الا تری انہ لا یؤثر حبس نفسہ علی حبس ولدہ فان قلت بھذا نفی الاول قلنا لا فرق بین الوالدین و الولد فی وجھہ الاستحسان و ھو المعتد۔

فی المبسوط24/143: فالانسان لا یکون راضیاً عادۃبقتل ابیہ او ابنہ ثم ھذا بلحق الھم و الحزن بہ فیکون بمنزلۃ الاکراہ بلاحبس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فذلک الاکراہ بقتل ابنہ و کذالک التھدید بقتل ذی رحم محرم، لان القرابۃ المتایدۃ بالمحرمیۃ بمنزلۃ الولادۃ فی حکم الاحیاء۔۔۔۔۔۔۔۔و فی الاستحسان ذلک اکراہ کلہ و لا ینفذ شیء من ھذہ التصر فات؛ لان حبس ابنہ یلحق بہ من الحزن ما یلحق بہ حبس نفسہ او اکثر فالولد اذا کان بارایسعی فی تحلیص ابیہ من السجن و ان کان یعلم انہ یحبس و ربما یدخل السجن مختارا و یحبس ماکن ابیہ کیخرج ابوہ فکما ان التھدید بالحبس فی حقہ یعدم تمام الرضا فکذلک التھدید بحبس ابیہ۔۔۔۔۔واللہ اعلم

محمد طاہر غفرلہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

11رجب المرجب1434ھ

22مئی 2013ء

اپنا تبصرہ بھیجیں