انویسٹمنٹ میں نفع نقصان کس فی صد سے؟

مفتی صاحب ایک شخص کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے،کاروبار کرنے والا شخص مزید تین  اور بندوں کو ساتھ ملاتا ہے  جو اس کے کاروبار میں  رقم انویسٹ کریں ۔یہ کہتا ہے کہ  دو  افراد کو ٪15 اور ایک کو ٪20 نفع دوں گا اور سب اس بات پر راضی بھی ہیں کیا یہ شراکت صحیح ہے؟ کیا نفع کے ساتھ وہ  ان تین لوگوں سے نقصان کی بات  کرسکتا ہے کہ اگر نقصان ہوا تو اس میں  بھی آپ  اسی فی صد کے ذمے دار ہوں گے؟ اگر یہ درست نہیں  تو درست طریقہ کیا ہوگاشریعت کے مطابق؟

سائل:محمد حمد اللہ

الجواب حامدا ومصلیا

®کاروبار میں شراکت داری  کی صورت میں نفع طے کرنے سے متعلق  درج ذیل امور کی رعایت ضروری ہے:

Œنفع کا حصہ متعین رقم کے بجائے  فیصدی تناسب کی صورت میں رکھا جائے۔

نفع اس کو قرار دیاجائے  جو اخراجات نکالنے کے بعد خالص نفع کے طور پر بچ رہا ہو۔لہٰذا کسی شریک کے لیےبغیر اخراجات نکالے اجمالی منافع میں  سے حصہ طے کرنا جائز نہیں۔

Žادائیگی سرمایہ کے  تناسب  سے طے نہ ہو۔بلکہ حاصل ہونے والے حقیقی نفع کے فیصدی تناسب میں طےہو۔مثلا ایک لاکھ کاروباری سرمایہ ہوگا اور اس کو اس کے سرمایہ کا دس فیصد ہر ماہ دیاجائےگا ۔ کیونکہ سرمایہ کا دس فیصد تو ایک متعین رقم ہے۔

تمام شرکاء اگر عملا کام میں شریک ہوں تو باہمی رضامندی سے نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے کچھ بھی طے کیا جاسکتا ہے۔لیکن اگر معاہدہ میں کسی شریک کے بارے میں طے ہوجائے کہ وہ کاروبار میں عملاً حصہ نہیں لے گا تو ایسے شریک کے لیے نفع کا حصہ اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نہیں رکھا جاسکتا۔(آسان فقہ المعاملات ۲/ ۱۳۔۱۵)

لہذا   مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے معاہدہ میں کاروبار کرنے والے کے ساتھ اگر بقیہ تین افراد  کام میں شریک ہوں اور باہمی تعاون سے کاروبار چل رہاہے تو باہمی رضامندی سے اگر دو شرکاء کے لیے ۱۵۔اور ایک کے لیے ۲۰فی صد نفع طے کیا جائے تو یہ جائز ہے۔اور اگرباقی تین افراد نے   کاروبار کے لیے صرف رقم مہیا کی ہے۔عمل میں شریک نہیں توان کے لیے اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع لینا درست نہ ہوگا۔لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ نفع کا تناسب ان کے لگائے ہوئے سرمایہ کے بقدر یا اس سے کم ہو تو جائز ہےاور اگر زیادہ ہے تو درست نہیں ہوگا۔

®کاروبار میں شراکت داری  کی صورت میں خسارہ  اور نقصان سے متعلق شریعت کی طرف سے ایک ہی اصول طے شدہ ہے کہ ہر شریک کو اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے تناسب سے ہی خسارہ برداشت کرنا پڑے گا ۔اس کے علاوہ کوئی بھی بات طے کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ شرط شریعت نے  لاگوکی ہے لہٰذا اس کے خلاف  جو بھی شرط ہوگی وہ خود بخود باطل اور کالعدم ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 59)

ومنها) : أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة.

(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 62)

إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 63)

وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال.

وإن شرطا العمل على أحدهما فإن شرطاه على الذي رأس ماله أقل؛ جاز، ويستحق قدر ربح ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على صاحب الأكثر لم يجز؛ لأن زيادة الربح في حق صاحب الأقل لا يقابلها مال ولا عمل ولا ضمان.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 65)

 لو اشتركا على أن يكون ما اشتريا أو أحدهما بينهما نصفين أو أثلاثا أو أرباعا وكيف ما شرطا على التساوي والتفاضل؛ كان جائزا، وضمان ثمن المشترى بينهما على قدر ملكيهما في المشترى۔

الفتاوى الهندية (2/ 320)

فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا، وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما،

الفتاوى الهندية (2/ 320)

وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں