اسلامی تجارت

(یآیھا الذین اٰمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل إلا أن تکون تجارۃً عن تراضٍ منکم ولا تقتلوا أنفسکم، إن اﷲ کان بکم رحیما)
کاروبار ضرورت ہے مقصد نہیں:
میرے محترم دوستو اور بزرگو! اﷲ نے ہمیں پیدا کیا اور پیدا کرنے کے بعد ہمارے پیدا کرنے کی غرض بتلائی ہے کہ ہم نے تمام جن و انس کو پیدا کیا ہے اپنی عبادت کے لیے۔ اصل مقصود اﷲ کو اپنی عبادت ہے۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ یہ بندے میری عبادت کریں۔ میرے حکموں کو مانیں، میرے حکموں پر چلیں اور جو عبادتیں میں نے ان پر فرض کی ہیں ان کو بجا لائیں۔ جن میں سب سے اہم چیز نماز ہے نماز دین کا اہم ستون ہے۔ اس کے علاوہ اﷲ کا ذکر ہے۔ اﷲ کی یاد ہے۔ میرے دوستو! یہ چیزیں وہ ہیں جن کے لیے اﷲ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ باقی کمانا، تجارت کرنا، اسی طرح خرید و فروخت کرنا۔ اپنے زندگی کے معاملات کو کس طرح ادا کرنا یہ ہماری ضرورت ہے۔ ہماری مقصد خلقت نہیں ہے۔ یعنی اﷲ نے ہمیں تجارت کے لیے پیدا نہیں کیا۔ پیدا تو اپنی عبادت کے لیے کیا ہے۔ لیکن عبادت ہو نہیں سکتی جب تک ہمارے پیٹ میں کچھ نہیں جائے گا۔ پیٹ میں کچھ جائے گا تو عبادت ہوگی۔ اگر پیٹ میں کچھ نہیں جائے گا تو میرے دوستو! بندہ عبادت کر ہی نہیں سکتا۔
حلال کمانا فریضہ:
اس لیے حدیث میں ہے کہ ’’فرائض کے بعد سب سے بہترین فرض جو ہے وہ ہے حلال کمانا  حلال کمانا ایک ایسا فرض ہے جو دوسرے فرائض کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لیے حلال کمانا یہ ایک اہم چیز ہے۔ اسی کے لیے مسائل کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ حلال ہم کھائیں گےحلال کمائیں گے حلال ہمارے پیٹ میں جائے گا۔ تو میرے دوستو! جو عبادت ہے اﷲJ اس کو قبول فرمالیں گے۔ اور جو ہم ان کی عبادت کریں گے وہ اﷲ کے ہاں مقبول و منظور ہوجائے گی اور اس پر ہمیں اجر مل جائے گا۔
حرام کا وبال:
لیکن خدانخواستہ اگر ہم حلال نہ کمائیں گے حلال نہ کھائیں گے تو یاد رکھیے جتنی بھی عبادت ہے کوئی بھی قبول نہیں ہوگی۔ اﷲ کی طرف سے وہ عبادتیں ساری منہ پر ماری دی جائیں گے اور قیامت کے دن آدمی خالی ہاتھ ہوگا۔ اس لیے بہت فکر کی بات ہے۔ بہت سوچنے کی بات ہے کہ حلال کمانا میرے دوستو! ہمارے لیے اس لیے ضروری ہے تاکہ ہماری نماز قبول ہوجائے تاکہ ہمارا حج قبول ہوجائے۔ تاکہ ہمارا روزہ قبول ہو جائے۔ یعنی جتنی عبادتیں ساری قبول ہو جائیں۔ اس لیے اﷲ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! باطل طریقے سے اور ناجائز طریقے سے مال نہ کھایا کرو۔ بلکہ آپس کی رضامندی سے تجارت ہو تو اس طرح اﷲ تمہیں اجازت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اجازت نہیں دیتے۔
حرام مال سے حج:
علماء نے مسئلہ لکھا ہے کہ ایک آدمی کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے لیکن سارا حرام ہے۔ ایک پیسہ بھی اس کا حلال نہیں۔ تو کیا اس پر حج فرض ہوگا یا نہیں ہوگا؟ کیا اس کو زکوٰۃ دینا ضروری ہوگا یا نہیں ہوگا؟ تو تمام علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک کروڑ روپیہ بھی ہے لیکن سب حرام کا ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہے۔ حج فرض ہوتا ہے حلال مال پر کہ حلال مال ہوگا تو حج فرض ہوگا۔ حرام مال ہوگا تو حج بھی فرض نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایک کروڑ روپیہ دیکھنے میں ہے اس کے پاس۔ ایک بڑی رقم اس کے پاس موجود ہے۔ لیکن چونکہ حرام کی ہے اور حرام مال اﷲJ قبول کرتے ہی نہیں۔ اس لیے حرام مال سے کی ہوئی عبادت کو بھی قبول نہیں فرماتے۔ اس لیے ہمیں اجازت ہی نہیں دیتے کہ تمہارے پاس حرام مال ہو اور تم میرے دربار میں آؤ۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں میرے دربار میں آنا ہے تو حلال کما کے آؤ حلال کھا کر آؤ تاکہ میں تمہاری عبادت قبول کروں۔
حدیث کا مفہوم:
اس لیے بعض احادیث کا مفہوم یہ سمجھ آتا ہے کہ اﷲ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی دور دراز سفر کرکے حج کو جاتا ہے اور وہاں جا کر لمبی لمبی دعائیں کر رہا ہے، کعبہ کا غلاف پکڑا ہوا ہے اور اس کے چوکھٹ پر اپنے کو لگا رکھا ہے۔ دعائیں کر رہا ہے کہ اﷲ میرا یہ کام کردے، میرا یہ کام کردے۔ میرا یہ کام کردے۔ اﷲ کے نبیﷺفرماتے ہیں: اﷲ J اس کی دعا کیسے قبول فرمائیں؟ اس کا کھانا حرام کا اس کا پینا حرام کا، اس کا لباس حرام کا۔ ہر چیز اس کی حرام کی ہے ﷲ اس کی دعا کیسے قبول فرمائیں۔ یعنی معلوم ہوا کہ دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ حج بھی قبول نہیں ہوتا۔
سیکھنا چاہیے!
میرے دوستو! حلال طریقے سے کمانا بغیر سیکھنے کے ممکن نہیں جب تک سیکھیں گے نہیں علماء سے معلوم نہیں کریں گے جائز ناجائز کا نہ جانیں گے، اس وقت تک حلال کمانا ممکن ہی نہیں ہے۔
کیونکہ ہمارے روزمرہ کے جو معاملات ہیں، تجارتی معاملات ہیں اکثر ناجائز ہیں اور ہمارے اکثر طریقے غلط ہیں اکثر ایسے ہیں جن میں سود لازم آتا ہے غلط قسم کے منافع لازم آتے ہیں۔ اب وہ مال حرام کا ہوجاتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو جی تجارت کی ہے۔ لیکن میرے دوستو! وہ تجارت اﷲ کے ہاں تجارت نہیں ہے۔ اس لیے اﷲ ہمیں توفیق دے۔ ہم دین کے احکام جو تجارت کے معاملے میں ہیں ان کو سیکھنے والے بن جائیں۔ جتنا سیکھیں گے ان شاء اﷲ اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ کیونکہ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی نہ سیکھنے کی وجہ سے ایسا کام کر لیتا ہے جو ناجائز ہوتا ہے حالانکہ اگر علماء سے پوچھا جائے تو علماء کوئی ایسا طریقہ بتا دیتے ہیں جس کے مطابق وہ کام جائز ہوجاتا ہے اور اگر وہ سیکھا نہ جائے تو وہ کام حرام ہی رہے گا۔ اس کا طریقہ جب تک نہ سیکھیں گے کہ جائز طریقہ کیا ہے؟ اس وقت تک میرے دوستو وہ مال جائز بنتا ہی نہیں۔ اس لیے سیکھنا بہت ضروری ہے۔
کاروبار کی تین اہم شرطیں:
اس سلسلے میں تین بنیادی باتیں ضروری سیکھنے کی ہیں۔
۱۔ چیز موجود ہو:
ان میں سے پہلی چیز جو علماء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں طے کردی ہے کہ جب تک چیز وجود میں نہ آئے اس وقت تک اس کو بیچنا جائز نہیں ہے۔ سوائے دو عقد(سلم اور استصناع) کے جن کی اﷲ کے نبیA نے اجازت دی ہے وہ ان شاء اﷲ ایک الگ بحث ہے۔ ورنہ عام طریقہ یہی ہے کہ جب تک چیز وجود میں نہ آجائے اس وقت تک اس کی خرید و فروخت کرنا حرام ہے۔
پہلی مثال:
آج ہمارے یہاں ہوتا کیا ہے؟ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ اﷲ معاف فرمائے باغ میں پھل آیا ہی نہیں۔ باغ میں کچھ لگا ہی نہیں۔
اب وہ آدمی جاتا ہے اور جا کر کہتا ہے جی! یہ باغ کا جتنا پھل ہے نا، میں نے اتنے لاکھ میں خرید لیا۔ اب وہاں کوئی چیز ہے ہی نہیں سوائے درخت کے۔ پھل موجود ہی نہیں ہے، جب پھل موجود نہیں ہے تو یہ کہنا کہ میں نے اتنے لاکھ میں خرید لیا شریعت کہتی ہے بالکل غلط سودا ہے۔ یہ سودا صحیح نہیں ہے۔ جب تک چیز وجود میں نہ آجائے گی، اس وقت تک یاد رکھیے کہ چیز بیچنا جائز نہیں ہوگا۔
دوسری مثال:
مثال کے طور پر ایک آدمی ہے، مکان بنا ہی نہیں۔ مکان کا وجود ہی نہیں۔ جس طرح آج کل ہورہا ہے کہ جی عام آج کل مسئلہ کیا چل رہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ بک رہے ہیں۔ جی ہم وہ پرچی خرید سکتے ہیں پلاٹ کی؟ یہ مسئلہ اتنا پوچھا جارہا ہے کہ کوئی حساب نہیں۔ جب پوچھا جائے کہ کون سا پلاٹ نمبر ہے آپ کا۔ تو جواب ملتا ہے: نہیں جی پتا ہی نہیں۔ وہ کہاں ہے ’’پلاٹ‘‘؟ کون سا ہے؟ کتنا نمبر ہے؟ کس جگہ ہے؟ کس طرح ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ تو اب یہ آپ خرید رہے ہیں تو کیا چیز خرید رہے ہیں، او جی پرچیاں خرید رہے ہیں، میرے دوستو! یاد رکھیے، علماء نے یہ مسئلہ صاف لکھ دیا ہے کہ یہ پرچی کی خریدو فروخت حرام ہے۔
وعدہ بیع جائز ہے:
ہاں آپ نے اپنے طور پر اس پارٹی سے کہہ دیا اس کے ممبر بن گئے، انہوں نے آپ کو کہہ دیا ہم آپ کو پلاٹ دے دیں گے، وعدہ کرلیا، ایک ہے وعدہ کہ وعدہ کر لیا، آپ کو پلاٹ دے دیں گے آپ پیسے جمع کراتے رہیں بعد میں آپ کو پلاٹ دے دیں گے۔ اب وہ آدمی جس کا نام نکل آیا قرعہ اندازی میں اس کو پلاٹ مل گیا، ملنے کے بعد فروخت کرسکتا ہے۔ ملنے سے پہلے صرف پرچی کی فروخت لاکھوں میں ہورہی ہے۔ وہ پرچی بک رہی ہے، 10 ہزار، 12 ہزار میں۔ اب لاکھوں میں۔
اس لیے آج کل میرے دوستو! بحریہ ٹاؤن میں جو لوگ پرچیاں بیچ رہے ہیں اور فروخت کر رہے ہیں، شریعت کے نقطہ نگاہ سے بالکل جائز نہیں۔ وعدہ بیع کرلیں! لیکن وہ تب ہی وعدہ بیع کرے گا جب اس کے پاس اپنی کوئی چیز موجود ہوگی۔ اس کے پاس اپنی کوئی چیز موجود ہی نہیں، اس کو پتا ہی کچھ نہیں۔ ہاں جو زمین کے مالکان ہیں جنہوں نے وہ زمین خرید لی ہے تو وہ وعدہ کریں کہ جی ہم آپ کو دے دیں گے تب تو بات عقل میں آتی ہے۔ لیکن آپ نہ مالک ہیں، صرف آپ کو پرچی ملی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اب آپ اس پرچی کو آگے بیچ دیں، پھر وہ پرچی آگے بک جائے، پھر وہ بھی آگے بک جائے تو شریعت میں میرے دوستو! سب منافع حرام ہے۔ یہ منافع جائز نہیں ہے۔
ائمہ اربعہ کا اتفاق:
ایک عالم کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ شریعت کے ضابطوں کو ختم کردے۔ اس لیے کہ شریعت کے ضابطے اﷲ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ ہیں۔ اﷲ رسولﷺ کے ضابطوں کو ختم کرنے کا کسی کو حق نہیں ۔ اس لیے ہم اپنے طور پر ناجائز کو جائز کہہ دیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
میرے دوستو! ہم پوچھیں تو صحیح کم از کم۔ یہ مسئلہ تو معلوم کرلیں کہ مسئلہ حقیقت میں ہے کیا؟ ضابطہ شریعت کا یہ ہے کہ وہ چیز جو ہے وہ وجود میں ہو۔ جو چیز وجود میں نہیں ہے اس کا بیچنا جائز ہی نہیں۔ شریعت کے چار ائمہ ہیں۔ چاروں میں سے کسی کے نزدیک بھی اس کا بیچنا جائز نہیں۔
تیسری مثال:
اس کی ایک مثال اور دوں۔ ’’علماء نے یہ کہا ہے کہ بعض دفعہ آپ جائیں سمندر پر۔ وہاں مچھیرے جال ڈال رہے ہیں۔ اب مچھیرے نے کہا کہ بھئی میں جال پھینکنے لگا ہوں۔ جتنی مچھلیاں اس میں آجائیں وہ ساری مچھلیاں میں نے آپ کو ہزار روپے میں بیچ دیں۔ میرے دوستو! یہاں اس کے پاس کسی چیز کا وجود ہے ہی نہیں۔ مچھلی ابھی اس کے ہاتھ میں آئی ہی نہیں۔ اب وہ کیا چیز بیچ رہا ہے اس کو تو یہ بیچنا حرام ہے اور اس طرح کی بیع کرنا کہ جال میں جتنی مچھلیاں آجائیں وہ میں نے بیچ دیں، ہوسکتا ہے کہ ایک بھی مچھلی نہ آئے۔ ہوسکتا ہے کہ ہزار آجائیں، ہوسکتاہے کہ 2 آجائیں۔
جھگڑے کا باعث معاملہ جائز نہیں:
شریعت ہر ایسے کام کو ناجائز قرار دیتی ہے جس میں جھگڑے کی نوبت آئے۔ لازمی بات ہے کہ جب جال میں ایک مچھلی آئی تو وہ کہے گا کہ مجھے ہزار روپے دو۔ میں نے تو یہی کہا تھا کہ جتنی بھی آئیں، ایک آئے، 10 آئیں، 20 آئیں ہزار روپے کی میں نے بیچ دی اب ایک مچھلی آگئی ہزار روپے مجھے دو۔ وہ کب دے گا؟ وہ تو لڑے گا کہ جی ایک مچھلی کے لیے تھوڑا ہی میں نے کہا تھا تو شریعت ہر ایسے کام کو ناجائز کہتی ہے جس میں جھگڑے کی نوبت آجائے۔
چوتھی مثال:
مثال کے طور پر ایک گائے ہے، وہ گابھن ہے۔ اس کا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ بچہ ہے بھی یا نہیں تو اس نے کہا یہ بچہ میں نے 5 ہزار میں خرید لیا۔ بچہ معلوم نہیں ہے بھی یا نہیں ہے۔ چیز وجود میں نہیں ہے۔ ابھی معلوم نہیں تو اس کو کیسے بیچا جا سکتا ہے۔
۲۔ چیز ملکیت میں ہو:
دوسرا ضابطہ شریعت مقرر کرتی ہے کہ جب تک ملکیت نہ آجائے اس وقت تک بیچنا جائز نہیں۔ وجود میں آنے کے بعد ملکیت میں آنا بھی ضروری ہے کہ ملکیت میں آجائے گی تو چیز بیچی جا سکتی ہے۔ ابھی ملک میں آئی ہی نہیں۔ مالک بنا ہی نہیں جس طرح میں نے بتایا بحریہ ٹاؤن کا۔ ابھی پلاٹ جو ہے ملا ہی نہیں، مالک بنا ہی نہیں۔ اس سے پہلے ہی اس کو بیچا جارہا ہے تو میرے دوستو! یہ بالکل حرام ہے۔ کسی چیز کا ملک میں آجانے کے بعد بیچنا جائز ہے۔ ملک میں آنے سے پہلے اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔ ہاں وعدہ آپ کر سکتے ہیں۔ کہ دیکھیں میرا مال فلاں جگہ سے آنے کا امکان ہے۔ میں نے بات وہاں کی ہے۔ میرا مال فلاں وقت میں آجائے گا۔ آپ کو اس قیمت میں دے دیں گے۔ یہ بیع نہیں ہے۔ وعدہ بیع ہے۔ وعدۂ بیع الگ چیز ہے۔ بیع الگ چیز ہے۔ تو یاد رکھیے، بیچنے کا وعدہ کرلینا جائزہے۔
۳۔ قبضہ کر لیا ہو:
جب تک قبضہ نہ ہوجائے شریعت کہتی ہے اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔ اب قبضے کے طریقے بہرحال عرف کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں۔ آج کل علماء نے کہا ہے کہ قبضے کا طریقہ یہ ہے کہ اس آدمی کے رسک میں آجائے۔ یعنی اگر ہلاک ہو تو اس کی ہلاک ہوگی۔ یعنی ایک آدمی نے اگر کوئی چیز خرید لی۔ لیکن وہ اس کے سامنے موجود نہیں ہے۔ پر اس نے کہہ دیا کہ جی ہم نے آپ کے گودام میں پہنچا دی ہے۔ فلاں گودام میں ہم نے وہ چیز رکھ دی ہے ۔ تو یہ گودام میں رکھ دینا اس کا قبضہ ہوگیا۔ گو کہ اب گودام میں آگ لگے گی تو اس کی چیز جائے گی جس کا گودام ہے۔ اس لیے شریعت کہتی ہے جب تک قبضہ نہ ہوجائے چیز پر اس وقت تک اس کو بیچنا جائز نہیں ہے۔ تو میرے دوستو! اس لیے آج جتنی ایسی صورتیں ہیں نا! جن میں چیز بغیر قبضے کے بیچی جاتی ہے وہ ساری صورتیں حرام ہیں۔
زمین مستثنیٰ ہے:
البتہ زمین ہے اس زمین کے بارے میں علماء نے اجازت دی ہے کہ زمین بغیر قبضے کے بیچ سکتے ہیں لیکن زمین پتا ہو، پلاٹ کون سا ہے۔
مثال: مثال کے طور پر ایک آدمی کا پلاٹ تھا۔ آپ نے اس سے سودا کر لیا پلاٹ کا۔ اور پتا تھا کہ پلاٹ نمبر فلاں ہے اور فلاں جگہ ہے۔ اب آپ نے وہاں جا کر پلاٹ دیکھا نہیں۔ قبضہ نہیں کیا۔ اب شریعت اس کی اجازت دیتی ہے کہ آپ آگے بیچ دیں۔ تو معلوم ہوا کہ زمین تو بغیر قبضے کے بیچی جا سکتی ہے۔ باقی اس کے علاوہ جتنی منقولی چیزیں ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہیں۔ ان سب چیزوں میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ جب تک وہ چیز تمہارے قبضے میں نہ آجائے، اس وقت تک اس چیز کی بیع کرو ہی نہیں۔ اس کو بیچو ہی نہیں۔ اس کو پہلے قبضے میں لو پھر بیچو۔ جس طرح میں نے بتایا تھا۔
اﷲ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ دین کے مسائل سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اﷲ ہم سب کو حرام سے محفوظ فرما کر ہماری عبادتوں کو اﷲ قبول فرمالے۔ (آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں