استخارہ اورمشورہ کاحکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:179

الجواب حامدا ومصليا

 (1) اگر کسی مباح اور اہم کام کے بارے میں انسان کشمکش میں مبتلا ہو کہ یہ کام کروں یانہ کروں تو ایسے موقع پر استخارہ اور مشورہ کر ناشر عامسنون اور دنیا اور آخرت میں باعث برکت ہے ، اور قرآن و حدیث میں دونوں کی بہت تر غیب آئی ہے، چنانچہ استخارہ کے بارے میں ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ تعالی نے فرمایا کہ:

من سعادة ابن آدم استخارته الله ورضاه بما قضى الله عليه، ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله، وسخطه بما قضى الله عز وجل ابن آدم کی خوش نصیبی  اور سعادت مندی ان کا اللہ تعالی سے خیر مانگنا ( استخارہ کرنا )ہے اور ان پر اللہ نے جو فیصلہ فرمایا ہے اس پر راضی رہنا ہے اور اولاد آدم کی بد بختی اور بدنصیبی  اللہ سے خیر طلب کرنے کا چھوڑ دینا اور اللہ کے فیصلہ پر ناراض ہونا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی ۱: ۲۱۹ )

اور مشورہ کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود اللہ رب العالمین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیتے ہوئے فرمایا

وشاورهم في الامر

اور ان سے اہم معاملات میں مشورہ لیتے رہو ( سورة الشوری آیت ۱۵۹)

 اور ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ 

من أراد أمرا فشاور فيه وقضى له هدي لأرشد الأمور

جو شخص کسی امر کا ارادہ کرے پھر اس میں مشورہ بھی کرے اور الله تعالی کے لئے فیصلہ کرلے اس کو تمام امور میں بہتر امر کی ہدایت ملتی ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی ٦ :۷۵)

 (۲) استخارہ اور مشورہ میں سے جو بھی پہلے کر لیا جائے تو جائز ہے، البتہ مستحب یہ ہے کہ کسی اہم دینی یا دنیوی کام کے سلسلے میں پہلے صالح اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کیا جائے، پھر استخارہ کیا جائے۔

 لمافی المرقاة (۲۳۳:۱۵)

ثم المستحب دعاء الإستخارة بعد تحقق المشاورة في الأمر المهم من الأمور الدينية والدنيوية وأقله أن يقول اللهم خر لي واختر لي ولا تكلني إلى اختياري والأكمل أن يصلي ركعتين من غير الفريضة ثم يدعو بالدعاء المشهور في السنة على ما قدمناه في کتاب الصلاة

(۳)سوال نمبر : ا کے جواب میں ذکر کردہ تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ کسی مباح اور اہم کام کے بارے میں استخارہ اور مشورہ کرنا دونوں مسنون اور باعث برکت ہیں، لہذا ایک عمل کے بعد دوسرا عمل کرنا جائز ہے۔

(۴)استخارہ اور مشورہ پر عمل کرناشر عا لازم اور ضروری نہیں ہے، البتہ استخارہ اور مشورہ سے جو کام کیا جائے انشاء اللہ دوسری صورتوں کے مقابلے میں اس صورت میں خیر و برکت غالب ہو گی ، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ

ما خاب من استخار ولا ندم من استشار ولا عال من اقتصد

لیکن وہ شخص نامراد نہیں ہو سکتا جس نے استخارہ کیاوہ شخص نادم و شرمندہ نہیں ہو سکتا جس نے مشورہ کیا اور وہ شخص محتاج نہیں ہو سکتا جس نے میانہ روی اختیار کی۔ (معجم الصغیر للطبرانی ٢: ١٧٥)

تاہم مشورہ کے سلسلے میں یہ بات واضح رہے کہ مشورہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک صاحب بصیرت شخص کی رائے سامنے آجائے، لیکن مشورہ لینے والا اس مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہو تا لہذا  اگر مشورہ لینے والا اس مشورہ پر عمل نہ کرے تو مشورہ دینے والے کو یہ بات محسوس نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اس بات پر ناراض ہونا چاہئے۔

(۵)استخارہ اور مشورہ بالعموم مباح امور اور ایسے امور میں کئے جاتے ہیں جو کسی درجے میں اہمیت کے حامل ہوں خواہ چھوٹا کام ہو یا بڑا کام ایسے ہر کام میں استخارہ اور مشورہ کرناشر عا ثابت اور مسنون ہے۔ فرائض وواجبات اور محرمات و مکروہات میں استخارہ اور مشورہ نہیں کیا جاتا، البتہ اگر کسی فرض یا واجب کے وقت میں وسعت ہو تو اس وقت کی تعیین کے لئے میں اس سال کروں یا اگلے سال کروں اور مستحب کام اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو مقدم کرنے کے لئے یا صرف ایک کو اختیار کرنے کے لئے استخارہ اور مشورہ کیا جاتا ہے۔ تاہم امور عادیہ یعنی وہ کام جن کو انسان اپنی عادت کے موافق روز مرہ انجام دیتا ہے ، مثلا کھانا پینا ، سونا جاگنا اور اپنی روز مرہ زندگی کی عمومی ضروریات یاروز مرہ کے معمولات جنہیں پورا کرنا ہی ہوتا ہے ان میں استخارہ اور مشورہ کرنے ضرورت نہیں، ہاں! اللہ تعالی سے ہر چھوٹی بڑی حالت کے لئے قدم قدم پردل دل میں دعامانگتے رہنا چاہئے۔ (تبیوب۳۲: ۱۳۶٧ )

وفی الدرالمختار (٢:٤٧١)

والاستخارة أي في أنه هل يشتري أو يكتري وهل يسافر برا أو بحرا وهل يرافق فلانا أو لا لأن الاستخارة في الواجب والمكروه لا محل لها وتمامه في النهر

 وفي حاشية الطحطاوی علی مراقی الفلاح(١: ٢٦٣)

اعلم أن محل ندب الاستخارة إنما هو في الأمور التي لا يدري العبد وجه الصواب فيها أما ما هو معروف خيره أو شره کالعبادات وصنائع المعروف والمعاصي والمنكرات فلا حاجة إلى الاستخارة فيها نعم قد يستخار فيها البيان خصوص الوقت كالحج مثلا في هذه السنة لإحتمال عدو أو فتنة

وفيه ايضا(۱:۴۷۷)

ويستخير في هل يشتري أو يكتري وهل يسافر برا أو بحرا وهل يرافق فلانا أو فلانا لأن الاستخارة في الواجب والمكروه والحرام لا محل لها

(۱)یہ بات درست نہیں ہے کہ” جس کا کوئی مشورہ والا ہو اس کیلئے استخارے کی ضرورت نہیں”  کیونکہ دنیامیں رسول اللہ سال سے بڑھ کر بہتر مشورہ دینے والی ہستی کوئی نہیں ہوسکتی، لیکن خو در سول اللهﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو استخارہ کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث مبارک ہے کہ:۔

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال كان رسول الله يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة (صحيح البخاری۲: ۱۱۵ ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعائےاستخارہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورة سکھاتے تھے۔

 لہذا جس کو کوئی مشورہ دینے والا ہو اس کو بھی استخارہ کر نا چا ہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب

محمد رضوان جیلانی عفا اللہ عنہ

 دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۱۹۔ ۳۔ ۱۴۳۳ھ

 ۱۲۔ ۲۔۲۰۱۲ء

استخارہ پہلے کرنا بہتر ہے، کیونکہ کوئی بھی چیز پہلے الله تعالی سے مانگنی چاہئے ، اور کسی بھی کام کے بارے میں اللہ تعالی سے پہلے مدد لینی چاہئے۔ چنانچہ رسول اللہ سلام نے ایک حدیث مبارک میں حضرت عبد الله ابن عباس رضی اللہ عنہم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: ۔

إذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله

 یعنی  جب تم سوال کا ارادہ کرو تو صرف اللہ تعالی کے آگے دست سوال دراز کرو جب تم دنیاو آخرت کے کسی بھی معاملہ میں مدد چاہو تو صرف اللہ تعالی سے مد مانگو (سنن الترمذی – ۴: ٦٦٧ )

اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

قال من أراد أمرا فشاور فيه و قضى الله هدي لأرشد الأمور (شعب الايمان ۶: ۲۵)

یعنی جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یانہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کو میں اور مفید صورت کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/698126603889921/

اپنا تبصرہ بھیجیں