میاں بیوی کے باہمی اختلافات شدید ہوں تو گھر والے کیا کریں ؟

سوال: ایک مسئلے کاحل درکار ہے کہ میاں بیوی میں 10 سالہ شادی کےبعد شدید نوعیت کے جھگڑے ہو رہے ہیں،ایک 9 سالہ بیٹی ہے۔
شادی کے ابتدائی ایک سال امن رہا ،پھر شوہر کی نوکری کے نہ ہونے کےباعث کافی مشکلات اور سسرالی چپقلش کا سامنا ہونے لگا، بیوی نے نوکری پہ اصرار کیا تو شوہر نے کچھ حجت کے بعد اجازت دے دی،پھر کچھ عرصے بعد خود نوکری سے دستبردار ہوگیا، شوہر کی نائٹ شفٹ ہوتی تھی جس سے گھر والے نالاں تھے، پہلے کراچی میں جوائنٹ سسٹم تھا پھر جب بیوی کو لاہور میں نوکری ملی تو دونوں بچی سمیت وہاں شفٹ ہوگئے،وہاں بھی شوہر کو مناسب نوکری نہیں ملی اور بچی کو اکیلے گھر چھوڑنے کا مسئلہ ہوا جھگڑے بڑھنے لگے، اسی دوران شوہر کو پتہ چلا کہ بیوی کسی غیر شخص کے ساتھ رابطے میں تھی جو دھوکہ دے کر چھوڑ گیا، اس وجہ سے معاملات زیادہ خراب ہوئے، دونوں طرف سے انتہائی قدم اٹھانے کا اندیشہ ہے گھر والوں کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ بیوی کا نفقہ شوہر پر لازم کیا ہے، اس کے لیے باہر نکل کر ملازمت وغیرہ کرنا پسندیدہ نہیں ،البتہ سخت مجبوری کی صورت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہو سکتی ہے کہ ایسی جگہ نوکری کرے جہاں اجنبی مردوں سے اختلاط کی نوبت نہ آتی ہو اورآنا جانا پردے کے ساتھ ہو ،اور شوہر کی اجازت کے ساتھ ہو،
دوسری بات یہ کہ عورت کے لیے بلاضرورتِ شرعیہ نامحرم مرد سے بات چیت کرنا گناہ کبیرہ ہے،شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔ خصوصاً شوہر  کی غیر موجودگی میں بات چیت کرنا شوہر کے حقوق میں خیانت اور سخت جرم ہے ۔لہذا مذکورہ عورت پر لازم ہے کہ سچے دل سے توبہ و استغفار کرے اور شوہر سے بھی معافی مانگے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ اس کو معاف کردے۔
رہ گئی آخری بات تو اگر واقعتا شوہر اور بیوی مصالحت چاہتے ہیں تو دونوں خاندانوں کے سمجھدار افراد ان کے درمیان اختلاف کی تحقیق کریں، دونوں کے گلے شکوے اور وضاحتیں سنیں پھر دونوں کو سمجھا کر تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں ۔
نیز خاوند کو سمجھائیں کہ وہ صحیح طریقے سے کمانے کی ذمہ داری پوری کرے کیونکہ نفقہ اس ذمے ہے تاکہ جھگڑے کی بنیادی وجہ ختم ہو۔
==============
حوالہ جات:
 1 ۔وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا۔
(النساء: 35) ۔
ترجمہ : “اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک مُنصِف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مُقّرر کرو ، اگر یہ دونوں صُلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا ”

2 ۔”وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ“ ۔
(النساء، 4 : 19)
ترجمہ :اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔

3 ۔” عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان “.
(سنن الترمذی: 467/2)۔
ترجمہ :” حضرت عبدااللہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے چناچہ جب کوئی عورت اپنے پردہ سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے (اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کر کے دکھاتا ہے)“ ۔

4 ۔”تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، کبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً“ ۔
 ( الفتاویٰ الهندیة: الباب التاسع عشر في النفقات ، الفصل الأول 544/1)۔

5 ۔ ”(وأما) النوع السادس: وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين ؛ لقوله تبارك وتعالى: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ [النور: 30] إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان“۔
( بدائع الصنائع :121/5)۔
واللہ اعلم بالصواب۔

4 ربیع الاول 1444
01 اکتوبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں