جان بوجھ کر چهوڑی جانے والی نماز کی بھی قضا لازم ہے

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر:۳﴾

سوال:-        حضرت یہ بتائیں کہ قضا نماز صرف اس نماز کی ہوتی ہے جو شرعی وجہ سے چهوٹ جاتی ہے؟ اگر کوئی شخص نماز جان بوجھ کے چهوڑتا ہے تو کیا اس کی قضا نہیں؟ 

ڈاکٹر فیض صاحب کہتے ہیں کہ ایسی نماز جو جان بوجھ کے چهوڑی جائے وہ فوت ہو جاتی ہے، کبھی بھی اس کی قضا نہیں ہے، بس اس کی توبہ کرکے ہی اللہ تعالی سے معافی مانگی جائے۔ برائے مہربانی جواب قرآن و حدیث کے حوالے سے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ جزاک اللہ

مدثر احمد

جواب :-       علمائے امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چهوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ  وہ ہرنماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اوراگرکبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو پہلی فرصت میں اس کی قضا پڑھے۔ بهول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ!لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے، اس کے لیے قضا کے ساتھ ساتھ توبہ ضروری ہے۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل  رحمہم اللہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چهوڑنے پر بھی نماز کی قضا کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب (الصلاة وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل  نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چهوڑدے؛ مگر قضا سے نماز چهوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا؛ بلکہ اسے نماز کی قضا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔

 علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن۱ / ۱۷۸)  میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چهوڑنے والے شخص پر قضا واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ 

زمانہٴ قدیم میں صرف امام داوٴد ظاہری اور موجودہ زمانہ میں بعض  اہلِ حدیث حضرات نے اختلاف کیا ہے۔ان کی رائے کی اصل  بنیاد اس پر ہے کہ ان کے نقطہ نظر میں جان بوجھ کر نماز چهوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضا کا معاملہ ہی نہیں رہا،لیکن جمہور علماء کی رائے یہ  ہے کہ جان بوجھ کر نماز چهوڑنے والا شخص کافر نہیں؛ بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ جن علماء نے فرمایا ہے کہ قصداً نماز چهوڑنے والا کافر ہوجاتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز کا موقف ہے، تو ان کا یہ قول کہ جان بوجھ کر چهوڑی گئی نماز کی قضا نہیں ہے، کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے، اگرچہ قصداً نماز چهوڑنے والے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگانا جمہور علماء کے قول کے خلاف ہے؛ مگر وہ حضرات جو جمہور علماء کے قول کے مطابق تارک صلاة پر کافر ہونے کا فتویٰ بھی صادر نہیں فرماتے اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ضروری نہ ہونے کا  بھی فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے علمائے امت کے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے انتہائی کمزور بھی ہے، جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضا کو واجب قرار دیا جائے؛ تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداوٴد، مسند احمد)

نصب الرايه (2-162)

” من نام عن صلاۃ او نسيها فلم يذکرھا الا و هو يصلی مع الامام فليصل التی هو فيها ثم ليقض التی تذکرھا“

مجموع الفتاوى –لابن تیمیہ رحمہ اللہ – (22 / 98)

وَسُئِلَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -:عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُدَّةَ سَنَتَيْنِ ثُمَّ تَابَ بَعْدَ ذَلِكَ وَوَاظَبَ عَلَى أَدَائِهَا. فَهَلْ يَجِبُ عَلَيْهِ قَضَاءُ مَا فَاتَهُ مِنْهَا أَمْ لَا؟ .

فَأَجَابَ:

أَمَّا مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ أَوْ فَرْضًا مِنْ فَرَائِضِهَا؛ فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ قَدْ تَرَكَ ذَلِكَ نَاسِيًا لَهُ بَعْدَ عِلْمِهِ بِوُجُوبِهِ وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ جَاهِلًا بِوُجُوبِهِ وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ لِعُذْرِ يَعْتَقِدُ مَعَهُ جَوَازَ التَّأْخِيرِ وَإِمَّا أَنْ يَتْرُكَهُ عَالِمًا عَمْدًا. فَأَمَّا النَّاسِي لِلصَّلَاةِ: فَعَلَيْهِ أَنْ يُصَلِّيَهَا إذَا ذَكَرَهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ۔

وَأَمَّا مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ جَاهِلًا بِوُجُوبِهَا:….فَهَذِهِ الْمَسْأَلَةُ لِلْفُقَهَاءِ فِيهَا ثَلَاثَةُ أَقْوَالٍ. وَجْهَانِ فِي مَذْهَبِ أَحْمَد: أَحَدُهَا: عَلَيْهِ الْإِعَادَةُ مُطْلَقًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحَدُ الْوَجْهَيْنِ فِي مَذْهَبِ أَحْمَد. وَالثَّانِي: عَلَيْهِ الْإِعَادَةُ: إذَا تَرَكَهَا بِدَارِ الْإِسْلَامِ دُونَ دَارِ الْحَرْبِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَبِي حَنِيفَةَ؛ لِأَنَّ دَارَ الْحَرْبِ دَارُ جَهْلٍ بِعُذْرِ فِيهِ؛ بِخِلَافِ دَارِ الْإِسْلَامِ. وَالثَّالِثُ: لَا إعَادَةَ عَلَيْهِ مُطْلَقًا. وَهُوَ الْوَجْهُ الثَّانِي فِي مَذْهَبِ أَحْمَد وَغَيْرِهِ.

وَأَمَّا مَنْ كَانَ عَالِمًا بِوُجُوبِهَا وَتَرَكَهَا بِلَا تَأْوِيلٍ حَتَّى خَرَجَ وَقْتُهَا الْمُوَقَّتِ فَهَذَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْقَضَاءُ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَذَهَبَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ ابْنُ حَزْمٍ وَغَيْرُهُ إلَى أَنَّ فِعْلَهَا بَعْدَ الْوَقْتِ لَا يَصِحُّ مِنْ هَؤُلَاءِ وَكَذَلِكَ قَالُوا فِيمَنْ تَرَكَ الصَّوْمَ مُتَعَمِّدًا وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.

فقط والله المؤفق

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں