جائید اد کے حصہ کا کسی کے حق میں دستبردارہونے کا شرعی حکم 

فتویٰ نمبر:630

کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع مبین اس مسئلہ کے بارے میں 

۱۔ میرے والد صاحب نے ۱۹۴۸ ؁ میں ایک ہندو سے کراچی شہر میں پگڑی دے کر ایک فلیٹ کرائے پر لیا تھا جس کا فریق ثانی بھی اقرار کرتاہے ۔

۲۔اس فلیٹ کے ایک کمرہ میں میرے ایک ماموں رہائش پزیر ہوگئے ۔۱۹۵۰ ؁ میں کراچی میں فسادات کی وجہ سے ہندو انڈیا چلاگیا اور فلیٹ محکمہ کسٹوڈین کے زیر انتظام آگیا او رکرایہ محکمہ وصول کرنے لگ گیا۔

۳۔امر تسر میں والد صاحب نے جو مکان میری والدہ کے نام لیاتھا ،۱۹۶۰ ؁میں والد صاحب نے اس مکان کے کلیم سے اس فلیٹ کو میری والدہ کے نام سے خریدنے کے لیے حکومت وقت کو درخواست دی ۔کلیم کی ملکیت گم ہونے کی بناء پر میرے نانا کا کلیم معاہدے کے تحت استعمال کیاگیا۔

معاہدہ کی مندرجہ ذیل شرائط تھیں :

ٓٓٓؒ

ٓ(الف)  معاہدہ کے دونوں فریق اپنے استعمال شدہ کلیم کی مالیت کی نسبت سے فلیٹ کے مالک ہونگے ۔

ٓٓؒ

(ب) فریق اول (یعنی کلیم کی ملکیت کی بناء پر میری والدہ ) جب چاہیں گی اپنی سہولت کے مطابق فریق ثانی یعنی میرے نانا کو بقیہ قیمت اداکرکے اپنے حصہ کی مالکہ بن جائیں گی 

۴)  ۱۹۶۸ ؁میں میرے نانا کا انتقال ہوگیا ۔میرے ناناکے ورثاء میں میری والدہ سمیت چار بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں ۔ اس میں دو ماموں جو نانا کے کاروبارمیں ان کے ساتھ شریک تھے اور زیادہ تر جائیداد ان کے قبضہ میں تھی ایک طرف بقیہ دو ماموں اور چھ بہنیں دوسری طر ہوگئیں ۔اور ان میں جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ شروع ہوگیا جو ہنوز حل طلب ہے ۔

۵) میری والدہ کی بیوگی کی بناء پر میرے دو عدد ماموں نے میرے سامنے زبانی دستبیری کا اعلان کیا ۔جسکا اس وقت کوئی دوسراگواہ نہ تھا۔

۶) جائیداد کی تقسیم کے دوسرے فریق سے میرے ایک ماموں نے میرے سامنے زبانی دستبرداری کا اعلان کیا جس کا اس وقت کو دوسراگواہ نہ تھا ۔

۷) کچھ دن قبل میرے اپنے زبانی دستبردار ہونے والے ماموں کے بیٹے جو کہ لاہور میں رہائش پزیر ہے ، سے ٹیلیفون پر بات ہوئی اور میں نے اسے ماموں کے زبانی دستبردار ہونے کا ذکر کیااور بتایا کہ میرے پاس اس بات کا کوئی گواہ نہیں ہے ۔

۸) تین دن بعد دوبارہماموں زادہ سے بات ہونے پر اس نے بتایاکہ اس نے اپنی والدہ سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو انہوں نے بھی اس سے اس امر کا اقرار کیا کہ ہاںتمہارے والد بہن کے حق میں اس فلیٹ میں اپنے حق سے دستبردار ہوگئے تھے ۔(یعنی اس دستبردار ی کا انہوں نے اپنی بیوی سے تذکرہ کیاہوادتھا ۔

۹) ۱۹۶۹ ؁میں جو ماموں فلیٹ کے ایک کمرہ میں مقیم تھے وہ بھی اس فلیٹ کے کمرہ کو مقفل کرکے دوسری جگہ منتقل ہوگئے ۔

۱۰)۱۹۷۸ ؁ میں جو بھائی زبانی اپنے حق سے میری والدہ کے حق میں دستبردار ہوئے تھے نے دوسر ے بھائی جو کمرہ کو مقفّل کر گئے تھے کی رضامندی سے اس کمرہ کا قبضہ میری والدہ کو دیدیا ۔اس طرح فلیٹ مکمل طور پر میری والدہ کے تصرف میں آگیا ۔ جس کے آدھے کی وہ خود مالک ، باقی نانا کی وراثت جس سے ایک بھائی کے علاوہ تمام بہن بھائی والدہ کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔

ہوچھنایہ کہ !

۱)  اب جبکہ سوائے دو ماموں کے ایک جو تحریر اََدستبردار ہوئے اور دوسرے جو نہیں ہوئے تھے نانا کے تمام ورثاء انتقال کرچکے ہیں ۔ چونکہ کسی قسم کا قانونی عمل وقوع پذیر نہ ہواتھا ۔دستبرداری قولی یاتحریر ی تھی ۔اب میرے ماموں اور خالاؤں جو کہ تحریر اََیازبانی اپنے حق سے دستبردار ہوچکے تھے ان کی اولاد میں سے کوئی بھی اس فلیٹ کی ملکیت ،قیمت میں دعویٰ کا حق رکھتاہے ۔

۲) چونکہ پگڑی میرے والد صاحب نے دی تھی میرے ایک عدد ماموں جوکہ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوئے تھے پگڑ ی میں کسی قسم کا حق رکھتے ہیںیانہیں ۔اگر رکھتے ہیں تو کس نسبت سے ؟

شرعی حیثیت سے تحریراََ مطلع فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہو ۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء 

الجواب باسم ملھم الصواب 

(۱) سائل نے فون پروضاحت کی کہ ان کے جن مامووں اورخالاوں نے اس کی والدہ کے حق میں اپنے حصوں سے دستبرداری ظاہر کی تھی ،انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’ہم نے اپناحصہ بہن کے حق میں چھوڑدیا‘‘

اس وضاحت کی روشنی میں جواب یہ ہے کہ مسؤلہ صورت میں لفظ ’’چھوڑدیا‘‘سے ہبہ صحیح نہیں ہوا،چنانچہ آپ کی والدہ اس سارے مکان کی مالک نہیں بنی۔لہذاآپ کے جو ماموں اورخالائیں زندہ ہیں خود ان کو اورجو فوت ہوگئے ہیں ان کے شرعی ورثاء میں سے ہرایک کواپنے اپنے حصہ میراث کے بقدر اس مکان کی ملکیت میں دعویٰ کاحق حاصل ہے۔البتہ اب اگر سب ورثاء اپنے حصوں کا معاوضہ لے لیں یاچونکہ یہ مکان چھوٹااورحصہ دارزیادہ ہونے کی وجہ سے باقابل تقسیم ہے اس لیے اگرتمام ورثاء بلامعاوضہ بھی ’’ہبہ ‘‘کردیایا ’’دیدیا‘‘کے الفاظ سے اپنااپناحصہ آپ کی والدہ کودیدیں تو اس طرح اس سارے مکان پر آپ کی والدہ کی ملکیت ثابت ہوجائے گی ۔

(۲) پگڑی کا مروجہ طریقہ کارشرعادرست نہیں ،اس لیے آئندہ اس مکان پرپگڑی کا عقدکرنے سے احتراز لازم ہے اورسابقہ مالک کو آپ کے والد نے پگڑی کی جورقم دی تھی وہ معاہدہ ختم ہونے کی وجہ سے آپ کی پگڑی کی رقم کا اسی شخص سے مطالبہ کرسکتے ہی ،ماموں وغیرہ سے نہیں کرسکتے۔

فقط واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں