جمعه مبارک اور رمضان مبارک كہنے کا حکم

فتویٰ نمبر:551

 سوال:جمعه مبارک اور رمضان مبارک كہنا كيسا ہے؟

حضرات مفتیان اکرام برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں

جواب :جمعہ کی مبارک باد دینا سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے لہذا اسے سنت مستحب وغیرہ سمجھنا بدعت ہے البتہ اگر کبھی کبھار سنت وغیرہ کی نیت کے بغیر برکت کی دعا کے طور پر کہہ دیا جائے تو جائز ہے لیکن اگر اس کو سنت سمجھنے لینے کا شائبہ ہو تو اسے ترک کر دینا چاہئے واللہ اعلم
باقی رمضان کا با برکت ہونا خود احادیث سی ثابت ھے۔اس لیے برکت کی دعا دی جاسکتی ھی،لیکن چونکہ آجکل یہ جملہ دعا سے زیادہ رسم پوری کرنی کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔اس لیے احتیاط کا کھا جاتاھے۔((عن أبي هريرة قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ” أتاكم “) أي جاءكم ” رمضان ” أي زمانه أو أيامه ” شهر مبارك ” بدل أو بيان، والتقدير هو شهر مبارك، وظاهره الإخبار أي كثر خيره الحسي والمعنوي، كما هو مشاهد فيه، ويحتمل أن يكون دعاء أي جعله الله مباركا علينا وعليكم، وهو أصل في التهنئة المتعارفة في أول الشهور بالمباركة، ويؤيد الأول قوله – صلى الله عليه وسلم -: ” «اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان» “، إذ فيه إيماء إلى أن رمضان من أصله مبارك فلا يحتاج إلى الدعاء، فإنه تحصيل الحاصل، لكن قد يقال: لا مانع من قبول زيادة البركة ” )مرقاۃ المفاتیح

اپنا تبصرہ بھیجیں