خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین حضرت علیؓ بن ابی طالب :پہلی قسط:تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین حضرت علیؓ بن ابی طالب :پہلی قسط:

تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی ،خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین حضرت علیؓ کاتعلق مکہ میں قبیلۂ قریش کے مشہوراورمعززترین خاندان’’بنوہاشم‘‘سے تھا، دوسری ہی پشت میں عبدالمطلب پرسلسلۂ نسب رسول اللہﷺکے نسب سے جاملتاہے، لہٰذا رسول اللہﷺ ، نیزحضرت علیؓ دونوں کے داداایک ہی تھے،یعنی ’’عبدالمطلب‘‘۔

حضرت علیؓ کی پیدائش مکہ شہرمیں رسول اللہﷺکی بعثت سے دس برس قبل ہوئی تھی۔آپؓ ابوطالب کے بیٹے تھے،جوکہ رسول اللہﷺکے مشفق ومہربان چچابھی تھے اورسرپرست بھی ، چھ سال کی عمرمیں جب رسول اللہﷺ کی والدہ آمنہ بنت وہب کاانتقال ہوگیاتھا، تب آپﷺ اپنے داداعبدالمطلب کی کفالت میں آگئے ، اور پھر دوسال بعدجب داداکاانتقال ہوا، تب آپﷺ داداکی وصیت کے مطابق اپنے چچاابوطالب کی کفالت میں آگئے تھے ،اُس وقت آپﷺ کی عمرمبارک آٹھ سال تھی ،ابوطالب نے تادمِ زیست آ پ ﷺکی کفالت وحفاظت اورسرپرستی وخبرگیری کافریضہ بحسن وخوبی انجام دیاتھا۔

حضرت ابوطالب کے چاربیٹے تھے۔طالب ، عقیل ، جعفر،اورعلی،جبکہ دوبیٹیاں تھیں۔اُم ہانی ، اورجُمّانہ۔ابوطالب کثیرالعیال اورقلیل المال تھے،ان کی اس تنگدستی کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ خاندان بنوہاشم کی سربراہی کے علاوہ متولیٔ کعبہ بھی تھے،لہٰذااُس دورکے رواج کے مطابق جوکچھ بھی انہیں میسرآتاوہ نہایت فراخدلی کے ساتھ حجاجِ بیت اللہ کی خدمت وخبرگیری اورمیزبانی میں خرچ کردیاکرتے تھے ۔

رسول اللہﷺ نے بچپن کے مرحلے سے نکلنے کے بعدجب شباب کی منزل میں قدم رکھاتواپنے محسن چچاکا ہاتھ بٹانے اورمعاشی بوجھ ہلکاکرنے کی غرض سے ان کے چھوٹے بیٹے ’’علی‘‘کواپنی کفالت میں لے لیاتھا،لہٰذاحضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کے گھرمیں اورخودآپﷺ کی نگرانی میں ہی تربیت اورنشوونماپائی تھی،اورپھراسی تربیت کی جھلک زندگی بھران کی شخصیت اورسیرت وکردارمیں نمایاں نظرآتی رہی…

حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺکی بعثت کے فوری بعد دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کرلیاتھاجب ان کی عمرمحض دس برس تھی۔مکہ میں آپﷺکے اعلانِ نبوت کے بعدکمسن علی ؓہمیشہ ہرقدم پرآپﷺ کے ساتھ رہے ،اورکمسنی کے باوجودجوبھی خدمت ان سے بن پڑی بلاترددہمیشہ ہرممکن خدمت سرانجام دیتے رہے۔

یہاں تک کہ آپﷺ کی بعثت کے بعداسی طرح مشرکینِ مکہ کے نرغے میں انتہائی نامساعدوپریشان کُن حالات میں تیرہ سال گذرگئے،تب اللہ سبحانہ، وتعالیٰ کی جانب سے ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہوا،ہجرت کی رات مشرکینِ مکہ نے آپﷺ کے قتل کامنصوبہ بنارکھاتھا،اوراپنے اسی ناپاک منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کی غرض سے آپﷺ کے گھر کا محاصرہ کررکھاتھا،اُس رات آپﷺ نے حضرت علیؓ کواپنے بسترپرسونے کی تلقین فرمائی تھی تاکہ آپﷺ کی وہاں سے روانگی کے بعددشمن اگراندرجھانک کردیکھیں تویہ سوچ کرمطمئن رہیں کہ آپﷺ اب تک اپنے گھرمیں ہی موجودہیں اوراپنے بسترپرسورہے ہیں ، لہٰذادشمن آپﷺ کاتعاقب کرنے کے بجائے بدستوراسی جگہ موجودرہیں۔

حضرت علی ؓ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ آج کی رات رسول اللہﷺکے بسترپرسوناگویاقتل گاہ میں سونے کے مترادف ہے،لیکن اس کے باوجودبلاچون وچرااوربلاخوف وخطرآپﷺ کے حکم کی تعمیل،یقینااطاعتِ رسولؐ کے حوالے سے، نیزفدائیت کے نقطۂ نگاہ سے،حضرت علی بن ابی طالب کایہ بے مثال اوریادگارکارنامہ تھا،نیز حضرت علیؓ کے اس عمل میں نوجوان نسل کیلئے ہمیشہ کیلئے یہ قیمتی پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطروقت پڑنے پرکسی بھی بڑے سے بڑے خطرے کاسامنا کرنے سے گریزنہ کیاجائے۔

رسول اللہﷺ کے پاس مشرکینِ مکہ کی بہت سی امانتیں رکھی ہوئی تھیں ،آپﷺ نے ہجرت کی رات وہ تمام امانتیں حضرت علیؓ کے سپردکرتے ہوئے یہ تاکیدفرمائی کہ ’’اے علی!یہ تمام امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کرنے کے بعدتم مکہ سے نکلنا‘‘

چنانچہ آپ ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت علیؓ وہ تمام امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچانے کے بعدمکہ سے تنِ تنہاپیدل ہی مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے،اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی۔

مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصے بعدآپ ﷺ نے اپنی سب سے چھوٹی اورلاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓکی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ کردی، یوں دونوں باہم رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے،آپ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے،ایک بارآپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کے بارے میں ارشادفرمایا: سَیِّدَۃُ نِسَائِ أھلِ الجَنَّۃ (ترمذی)’’فاطمہ جنت میں تمام عورتوں کی سردارہیں‘‘۔اللہ نے ان دونوں کودوبیٹوں حسن اورحسین،نیزدوبیٹیوں ام کلثوم اورزینب سے نوازا۔

رسول اللہﷺ اپنے ان کمسن نواسوں سے بہت زیادہ محبت کیاکرتے تھے ،ایک موقع پر آپ ﷺ نے ان دونوں کے بارے میں ارشادفرمایا: ھُمَا رَیحَانَتَايَ مِنَ الدُّنیَا (مسند احمد) ’’اس دنیامیں یہ دونوں میرے پھول ہیں‘‘۔

نیزآپ ﷺ اپنے داماداورچچازادیعنی حضرت علیؓ کے ساتھ بھی ہمیشہ انتہائی شفقت وعنایت کامعاملہ فرمایاکرتے تھے،چنانچہ ایک موقع پرآپ ﷺ نے ان کیلئے ان الفاظ میں دعاء فرمائی : اَللّھُمّ وَالِ مَن وَالَاہُ ، وَ عَادِ مَن عَادَاہ (مسند احمد) ’’اے اللہ جوکوئی اس سے دوستی رکھے توبھی اُس سے دوستی رکھ ، اورجوکوئی اس سے دشمنی رکھے توبھی اُس سے دشمنی رکھ‘‘۔

ایک بارآپ ﷺ نے حضرت علی ؓکومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: أَنتَ أَخِي فِي الدُنیَا وَالآخِرَۃِ(ترمذی) ’’ اے علی! آپ دنیامیں بھی اورآخرت میں بھی میرے بھائی ہیں‘‘۔

اللہ عزوجل نے اپنے اس برگزیدہ بندے علی بن ابی طالب کوگوناگوں اوصاف وکمالات سے نوازاتھا،ان کی شخصیت میں جامعیت وہمہ گیری نمایاں نظرآتی تھی،اس چیزکامختصرتذکرہ درجِ ذیل ہے:

شجاعت وبہادری

شجاعت وبہادری کے لحاظ سے حضرت علی ؓ کی شخصیت کاجائزہ لیاجائے توہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ،ہرموقع پرحضرت علیؓ شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے اورجرأت وشجاعت کے بے مثال کارنامے دکھاتے رہے،سوائے غزوۂ تبوک کے (سن ۹ ہجری میں) کیونکہ اُس موقع پرآپﷺنے تبوک کی جانب روانگی کے وقت مدینہ میں حضرت علیؓ کواپنے اہلِ بیت کی حفاظت وخبرگیری کی ذمہ داری سونپی تھی، تب حضرت علیؓ نے عرض کیاتھاکہ : یَا رَسُولَ اللّہ، ھَل تُخَلِّفنِي فِي النِّسَائِ وَ الصِّبیَان؟’’اے اللہ کے رسول!کیاآپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟‘‘ (یعنی اس چیزپرافسوس اورپریشانی کااظہارکیا…کہ میں میدانِ جنگ میں مردوں کی طرح لڑنے کی بجائے یہاں مدینہ میں بس عورتوں اوربچوں کے ساتھ بیٹھارہوں) اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا: أَمَا تَرضَیٰ أن تَکُونَ مِنِّي بِمَنزِلَۃِ ھَارُونَ مِن مُوسَیٰ؟ غَیرَ أنَّہ، لَا نَبِيَّ بَعدِي (مسند احمد)’’اے علی!کیاآپ کویہ بات پسندنہیں کہ آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہوجوہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی؟ ہاں البتہ یہ کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے‘‘۔

خصوصاً(سن سات ہجری میں)غزوۂ خیبرکے موقع پرحضرت علیؓ کاکردارہمیشہ ناقابلِ فراموش تصورکیاجاتارہے گا،جب اسلامی لشکرکی وہاں آمدکے موقع پرخیبرکے یہودی قلعہ بندہوکربیٹھ گئے تھے،محاصرہ کافی طول پکڑچکاتھا،صورتِ حال کافی سنگین اورباعثِ تشویش تھی،اس دوران فریقین کے مابین متعدچھوٹی بڑی جھڑپوں کی نوبت آتی رہی،تاہم کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا،آخرایک روزرسول اللہﷺنے اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’لَاُعطِیَنَّ الرّایَۃَ غَداً رَجُلاً یُحِبَّ اللّہَ وَ رَسُولَہٰ، وَ یُحُبُّہُ اللّہُ وَ رَسُولُہ،‘‘ ’’کل میں جھنڈاایسے شخص کوعطاء کروںگاجواللہ اوررسول سے محبت کرتاہے ، اوراللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘

ظاہرہے کہ رسول اللہﷺکی طرف سے یہ بہت بڑی خوشخبری تھی ،اوربہت بڑی گواہی تھی اُس شخص کے بارے میں کہ جسے کل علم سونپاجاناتھااورسپہ سالاری وقیادت کی ذمہ داری جس کے حوالے کی جانی تھی،…اس کے حق میں یہ بہت بڑی گواہی تھی کہ وہ’’ اللہ اوررسولؐ سے محبت کرتاہے، نیزاللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔چنانچہ لشکرمیں موجودبڑے بڑے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ رات اسی آرزو میں گذاری کہ کاش کل صبح رسول اللہﷺمیرانام پکاریں،اورجب صبح کاسورج طلوع ہوا، تورسول اللہﷺکی آوازگونجی ’’علی کہاں ہیں؟‘‘ تب حضرت علی ؓ حاضرِخدمت ہوئے ، رسول اللہﷺنے اپنے دستِ مبارک سے انہیں عَلَم (جھنڈا) عطاء فرمایا، نیزفتح اورخیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے انہیں رخصت فرمایا۔

رسول اللہﷺکے حکم کی تعمیل میں حضرت علیؓ اسلامی لشکرکی قیادت کرتے ہوئے دشمن کی جانب پیش قدمی کرنے لگے،آمناسامناہوا، کافی سنسنی خیزاوراعصاب شکن قسم کی جنگ لڑی گئی۔اس موقع پریہودی فوج کی قیادت ’’مرحب‘‘نامی شخص کررہاتھا ،جس کابڑارعب اوردبدبہ تھا،اورجس کی بہادری کے بڑے چرچے تھے، وہ اُس دورکابڑانامی گرامی پہلوان بھی تھا۔

چنانچہ اس نے انتہائی غروروتکبرکے ساتھ حضرت علی ؓ کوللکارا،جواب میں حضرت علی ؓ نے اس پرایسابھرپوروارکیاکہ غروروتکبرکاوہ پتلا، پلک جھپکتے ہی زمیں بوس ہوگیا، اورپھرآخرتمام شہر’’خیبر‘‘مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگیا،اور یوں رسول اللہ ﷺ اپنے لشکرسمیت کامیاب وکامران واپس مدینہ تشریف لے آئے۔

(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں