خلیفہ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ :قسط نمبر 3

خلیفہ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ :قسط نمبر 3

عدل وانصاف

خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کواس حقیقت کابخوبی احساس وادراک تھاکہ بقاء کارازعدل وانصاف میں ہی مضمرہے،لہٰذاچھوٹے بڑے اورامیروفقیرکی رعایت کے بغیرانہوں نے انصاف کے تقاضوں کی ہمیشہ مکمل پاسداری کی اوراس سلسلے میں رہتی دنیاتک اعلیٰ مثال قائم کی ،یہی وجہ ہے کہ آج بھی ’’عدلِ فاروقی‘‘کوضرب المثل سمجھاجاتاہے ،اوراس لحاظ سے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت کو’’مثالی دور‘‘تسلیم کیاجاتاہے۔

رعایاپروری

فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی نظرخلافت کی ظاہری شان وشوکت پرنہیں تھی،بلکہ ان کی نظرمیں خلافت’’پدرانہ حیثیت‘‘رکھتی تھی،جیسے ایک باپ اپنی اولادکاخیال رکھتاہے، ایسے ہی فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اپنی رعایاکاخیال رکھتے تھے،آپؓ نے اپنی رعایاکااوراس بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہی کااحساس اس حدتک کیاکہ تاریخ اپنے کسی دورمیں اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی،اسی احساس کایہ کرشمہ تھاکہ کمزوروں اورمحتاجوں کے جذبات اوران کی تکلیفوں کاصحیح اندازہ لگانے کیلئے آپؓ نے خودکوہمیشہ انہی کی سطح پررکھا، راتوں کواٹھ اٹھ کرشہرکے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے اورلوگوں کے حالات ومشکلات کابذاتِ خوداندازہ لگاتے،رعیت میں سے کسی کے پاؤں میں اگرکانٹاچبھ جاتاتواس کی چبھن اورتکلیف عمراپنے دل میں محسوس کرتے…!!

شہادت

خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ سن ۲۳ہجری میں جب حجِ بیت اللہ سے واپسی پرمکہ سے مدینہ کی جانب محوِسفرتھے،راستے میں ایک جگہ اپنے اونٹ کوبٹھایا،اورزمین پربیٹھ کراپنے ہاتھوں سے سنگریزوں کواِدھراُدھرہٹاتے ہوئے آرام کیلئے کچھ جگہ بنائی،اورپھروہاں اپنی چادربچھاکراس پرلیٹ گئے،جب نگاہ آسمان کی جانب اٹھی توفوراًہی دونوں ہاتھ بھی آسمان کی جانب بلندہوگئے،تب اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے یوں دعاء کی :اَللّھُمَّ کَبُرَتْ سِنِّي ، وَضَعُفَتْ قُوَّتِي ، وَانتَشَرَتْ رَعِیَّتِي ، فَاقبِضنِي اِلَیکَ’’اے اللہ!اب میری عمرزیادہ ہوگئی ہے ، قوت بھی کمزورپڑچکی ہے، رعایابھی خوب پھیل چکی ہے،اس لئے اے اللہ!اب تومجھے بس اپنے پاس بلالے‘‘۔

اورپھرمدینہ منورہ پہنچنے کے بعدمسجدِنبوی میں خطاب کے دوران اللہ سبحانہ،وتعالیٰ سے اپنے لئے شہادت کی دعاء مانگی،لیکن پھرفوراًہی فرمانے لگے : أَنَّیٰ لِي الشَّھَادَۃ؟’’میرے نصیب میں شہادت کہاں؟‘‘اس جملے سے غالباًمقصدیہ ہوگاکہ مختلف محاذوں پرجواسلامی افواج اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرمصروفِ جہادہیں،…وہ تمام علاقے مدینہ سے بہت دورسینکڑوں،بلکہ ہزاروں میلوں کی مسافت پرہیں،لہٰذامحاذِجنگ سے اس قدردوریہاں مدینہ میں بیٹھے ہوئے ’’شہادت‘‘کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے؟اورپھرقدرے توقف کے بعدخودہی یوں فرمانے لگے: اِنَّ الَّذِي سَاقَنِي مِن مَکَّۃَ اِلَیٰ المَدِینَۃِ قَادِرٌ عَلَیٰ أن یَسُوقَ لِي الشَھَادَۃَ اِلَیٰ المَدِینَۃ ’’وہ اللہ جس نے اپنے فضل وکرم سے مجھے مکہ سے مدینہ پہنچادیا،یقیناوہ اس بات پربھی قادرہے کہ اب میرے لئے ’’شہادت‘‘ کوبھی یہیں مدینہ میں ہی پہنچادے‘‘۔

اس واقعہ کے بعدمحض چندروزہی گذرے تھے کہ ماہِ ذوالحجہ کے آخری دنوں میں ’’ابولولوفیروز‘‘نامی مجوسی غلام نے آپؓ کے قتل کامنصوبہ بنایا،اس مقصدکیلئے اس نے ایک بڑازہرآلودخنجربھی تیارکیا۔ایک روزنمازِفجرسے پہلے ہی اندھیرے کافائدہ اٹھاتے ہوئےوہ مسجدکے کسی کونے میں چھپ کربیٹھ گیا،جب نمازکاوقت ہوا اور حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ حسبِ معمول امامت کیلئے آگے بڑھے اورنمازشروع کی،ابھی تکبیرہی کہی تھی کہ ابولولوفیروزنے آگے بڑھ کرخنجرسے کئی وارکئے،لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تواس نے اندھادھندہرایک کونشانہ بناناشروع کردیا،چونکہ مسجدمیں سب ہی لوگ غیرمسلح تھے اس لئے اسے پکڑنے میں دقت پیش آئی،اس کے ان حملوں کے نتیجے میں وہاں موجودنمازیوں میں سے تیرہ افرادشدیدزخمی ہوئے،جن میں سے چھ افراد شہیدہوگئے،کچھ موقع پرہی اورکچھ بعدمیں،اس موقع پرقاتل نے جب فرارہونے کی کوشش کی توحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس پراپناکمبل ڈال دیا،جس پراسے نقل وحرکت میں دشواری پیش آنے لگی،اورتب اس نے گرفتاری سے بچنے کیلئے اپنے ہی خنجرسے خودکشی کرلی،یوں وہ بدبخت اپنے اس بدترین جرم کے پیچھے کارفرمااصل ’’سازش‘‘کوہمیشہ کیلئے ’’سربستہ راز‘‘کی شکل میں چھپاگیا۔

حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ جواس اچانک حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوجانے کی وجہ سے گرگئے تھے،اب انہوں نے نمازمکمل کرنے کی غرض سے حضرت عبدالرحمن بن عو ف رضی اللہ عنہ کواشارہ کیا،جس پرانہوں نے آگے بڑھ کر نمازِفجرمکمل کی،جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کوفوری طورپراٹھاکرگھرپہنچایاگیا۔

کچھ وقت گذرنے کے بعدجب طبیعت قدرے سنبھلی تواپنے سرہانے موجودحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکومخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا’’بھتیجے !وہ حملہ آورکون تھا،اوراس کاانجام کیاہوا؟‘‘اس پرانہوں نے جواب میں یوں کہا’’وہ مجوسی غلام ابولؤلؤفیروزتھا،اوریہ کہ اس نے خودکشی کرلی ہے‘‘ ۔ یہ سن کر فرمایا’’اللہ کاشکرہے کہ مجھے کسی ایسے شخص نے قتل نہیں کیاجواللہ کے سامنے سجدہ ریزہوتاہو‘‘۔

اس موقع پرمہاجرین وانصارمیں سے کبارِصحابہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ ’’اے امیرالمؤمنین! آپ اپناجانشین مقررکردیجئے…تاکہ اختلاف وافتراق کی نوبت نہ آئے‘‘اس پرحضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے چھ حضرات کے نام گنواتے ہوئے فرمایاکہ ’’رسول اللہﷺکے نزدیک ان چھ حضرات کی خاص حیثیت تھی،آپﷺان سے ہمیشہ خوش رہے اور تادمِ آخرراضی ومطمئن رہے ،لہٰذایہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں‘‘۔ وہ چھ افرادیہ تھے:

۱۔حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ۔ ۲۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔۳۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ۔۴۔حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ۔۵۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ۔۶۔حضرت زبیربن العوام رضی اللہ عنہ۔

نیزاس موقع پریہ تاکیدبھی فرمائی کہ ان چھ حضرات میں سے کسی ایک کے انتخاب کایہ کام زیادہ سے زیادہ تین دن کی مدت میں بہرصورت طے پاجائے،تاکہ معاملہ طول نہ پکڑنے پائے،اوریوں منافقین اورخفیہ دشمنوں کوکسی سازش کاموقع نہ مل سکے۔

حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس قاتلانہ حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعدیہ تاکیدکی تھی کہ نئے خلیفہ کے انتخاب تک ان کی جگہ مسجدِنبوی میں حضرت صہیب نمازپڑھائیں، چنانچہ اس دوران،اورحضرت عمرؓکی شہادت کے بعدبھی مزیدتین دن یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب تک مسجدِنبوی میں امامت کے فرائض حضرت صہیب بن سنان الرومیؓ انجام دیتے رہے۔

اس کے بعدحضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان چھ افرادکوبلوایا،اورانہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’تم میں سے جوشخص خلافت کیلئے منتخب ہو، اسے میں وصیت کرتاہوں کہ وہ ’’انصار‘‘کے حقوق کابہت لحاظ رکھے،کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺکی مددکی اورمہاجرین کواپنے گھروں میں ٹھکانہ فراہم کیا،انصارتمہارے محسن ہیں، تمہیں بھی ان کے ساتھ احسان ہی کرناچاہیے،ان کی بھول چُوک سے جہاں تک ممکن ہودرگذر سے کام لینا‘‘۔

پھرمزیدفرمایا:’’تم میں سے جوکوئی خلافت کیلئے منتخب ہومیں اسے ’’مہاجرین‘‘کے ساتھ حسنِ سلوک کی بھی وصیت کرتاہوں‘‘۔

اورپھراپنے بیٹے عبداللہ کوام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں یہ کہتے ہوئے بھیجاکہ ’جاؤ ان سے میرے لئے رسول اللہﷺاورابوبکررضی اللہ عنہ کے پہلومیں تدفین کی اجازت طلب کرو‘‘اس پرحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماوہاں پہنچے اوراپنے والدیعنی حضرت عمرؓکی طرف سے یہی گذارش کی،جسے سننے کے بعدام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے،فرمایا:’’میں اس جگہ کواپنے لئے محفوظ رکھناچاہتی تھی،مگرآج میں عمرکوخودپرترجیح دوں گی‘‘

۲۶/ذوالحجہ سن ۲۳ہجری بروزِبدھ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعدچوتھے روزیعنی یکم محرم سن ۲۴ہجری بروزاتوارتریسٹھ برس کی عمرمیں رسول اللہ ﷺکے خاص ساتھی اورجلیل القدرصحابی خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے رب سے جاملے،نمازِجنازہ حضرت صہیب بن سنان الرومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ،مسجدِنبوی میں رسول اللہﷺاورخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پہلومیں سپردِخاک کئے گئے۔

(الحمد للہ یہاں تک عشرہ مبشرہ میں سے دوسرے صحابی خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا تذکرہ مکمل ہوا۔۔۔ان شاءاللہ اگلی اقسام میں خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ کا تذکرہ کیا جائے گا۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں