خلوت صحیحہ سے پہلے اگر طلاق دی جائے تو عدت واجب نہیں۔

فتویٰ نمبر:5045

سوال: ایک عورت کی رخصتی ہوٸ اور سسرال پہنچتے ہی طلاق ہوگٸی کیا اس پر عدت لازم ہے؟

تنقیح: شوہر کے ساتھ کچھ وقت تنہائی میں گزارا؟ یعنی اتنا وقت جس میں صحبت ممکن ہو؟

جواب: تنہاٸی میں بلکل بھی وقت نہیں ملا سسرال جاتے ہی طلاق ہوگٸی۔

و السلام: 

الجواب حامدا و مصليا

و علیکم السلام!

باقاعدہ صحبت یا خلوت صحیحہ سے پہلے اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے تو اس سے بیوی پر عدت گزارنا لازم نہیں ہوگا۔ 

لہذا اگر سوال میں بتائی گئی صورت واقعہ کے مطابق ہے اور اس کو خلوت صحیحہ بالکل نہیں ملی تو اس صورت میں مطلقہ پر عدت بھی لازم نہیں ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا – 

“اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو۔” (۱)

اس کے علاوہ درج ذیل امور قابل غور ہیں:

مہر طے ہونے کی صورت میں وہ نصف مہر کی مستحق بنیں گی۔ اور اگر عقد کے وقت مہر طے نہ کیا گیا ہو تو وہ ایک جوڑے کپڑے کی حقدار ہوں گی۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

لَّا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ إِن طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوهُنَّ أَوۡ تَفۡرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةٗۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى ٱلۡمُوسِعِ قَدَرُهُۥ وَعَلَى ٱلۡمُقۡتِرِ قَدَرُهُۥ مَتَٰعَۢا بِٱلۡمَعۡرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلۡمُحۡسِنِينَ۔ وَإِن طَلَّقۡتُمُوهُنَّ مِن قَبۡلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَهُنَّ فَرِيضَةٗ فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ إِلَّآ أَن يَعۡفُونَ أَوۡ يَعۡفُوَاْ ٱلَّذِي بِيَدِهِۦ عُقۡدَةُ ٱلنِّكَاحِۚ وَأَن تَعۡفُوٓاْ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۚ وَلَا تَنسَوُاْ ٱلۡفَضۡلَ بَيۡنَكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعۡمَلُونَ بَصِيرٌ 

” اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناه نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائده دو۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائده دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ ﻻزم ہے۔ اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقرره مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وه خود معاف کردیں یا وه شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گره ہے تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔” (۲)

اگر ایک ہی طلاق دیا تو طلاق بائن (یعنی نکاح کو ختم کرنے والا) طلاق سمجھا جائےگا۔ یعنی اگر مرد عورت اس طلاق کے بعد میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا چاہیں گے، تو از سر نو نکاح کرنا ہوگا۔ اور اگر ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دی تو اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی۔ اب وہ اس سے حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا۔ (۳)

▪ (۱) سورۃ احزاب، آیت ۴۹

▪ (۲) سورۃ بقرۃ، آیات ۲۳۶، ۲۳۷

▪ (۳) إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق وكذا إذا قال أنت طالق واحدة وواحدة وقعت واحدة كذا في الهداية۔ (الھندیۃ: ۱ / ۳۷۳)

فقط ۔ واللہ اعلم 

قمری تاریخ: یکم محرم الحرام ۱۴۴۱

عیسوی تاریخ: یکم ستمبر ۲۰۱۹

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں