خاندان میں شادی کرنے سے وراثتی بیماری کے پھیلنے کا  شریعت میں ثبوت نہیں

فتویٰ نمبر:722

سوال   کیا فرماتے ہیں حضرات علماٰء کرام  ان مسائل کے بارے میں  ؟

 ( الف)  ڈاکٹری کی رو سے خاندان میں شادیاں کرنے سے وراثتی بیماریاں  پھیلتی ہیں ۔ شریعت میں اس کی کیا حقیقت ہے ؟

 ( ب) خاندان میں شادی  کرنا افضل ہے  یا خاندان سے باہر شرعی لحاظ سے ؟

(ج)کیا نبی ﷺ نے کہیں چچا زاد ماموں  زاد کے علاوہ دورکے رشتہ داروں میں یا اور کسی خاندان میں شادی کی  ترغیب دی ہے  ( میں نے کسی کتاب میں یہ پڑھا تھا کتاب کا نام  یاد نہیں )

 ( د) کیا آدمی وراثتی بیماریوں سے بچنے کے لیے خاندن سے باہر شادی کرسکتا ہے  ؟

 جواب : نکاح کرتے وقت جن اوصاف کو مد نظر رکھا جاتا ہے  ان میں سے ایک عورت کے  حسب یعنی خاندان شرافت کو دیکھنا ہے ۔ لیکن شریعت   نے اصل   بنیاد  دین کو  ٹھہرایا  ہے۔ لہذا اگر اپنے  خاندان  میں دیندار رشتہ نہ ملتا ہو اور نسبتاً  بعید خاندان  میں دینداررشتہ   ملتا ہو تو شادی کرنے میں اس کو  ترجیح  دینا چاہیے ۔ جیسا کہ ” مصنف عبدالرزاق ” میں روایت  ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے  جس کی امانت داری اچھےاخلاق سے تم رضامند ہو تو نکاح کردیا کرو وہ  کوئی  بھی ہو اس  لیے اگر تم ایسا نہیں کروگے  تو  زمین میں فساد پیداہوجائے گا ۔

 رہا خاندان میں زیاد ہ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ شادیاں کرنے میں وراثتی بیماریوں کا آنے والی نسل میں منتقل ہونا یا بچے  کا جسمانی  اورذہنی  اعتبار سے ضعیف ہونا ۔ سو شریعت  میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ اس کا تعلق تجربے سے ہے  اور تجربہ شاہد ہے کہ کبھی ایسے نکاح کے  کوئی بیماری ظاہر نہیں ہوتی  کبھی ہو جاتی ہے ۔ لہذاا س بناء پر رشتہ  داروں سے نکاح  کو ہمیشہ کے لیے  برا سمجھنا درست نہیں ۔ البتہ اگر کوئی  شخص سبب کے درجہ  میں طبی احتیاط کے طور پرا س سے اجتناب  کرے تب بھی  شرعاً کوئی مانع نہیں ہے ،۔

بعض کتابوں میں ایک  بات حدیث کے طورپیش کی جاتی ہے  ۔” لا تنکحوا القرابۃ القریبۃ فان  الولد یخلق ضاویا ای نحیفا ً

 یعنی قریبی  رشتہ داروں سے شادی نہ کرو اس لیے  کہ اس  سے اولاد  ضعیف پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس بات کا  حدیث ہونا سند سے ثابت نہیں ۔

حافظ ابن حجر  ؒ فرماتے ہیں کہ اگر بطور حدیث کے مانی جائے توا س کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ اور اگر یہ بات تجربہ پر مبنی  ہے تو قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

علامہ زبیدی ؒ  نےا س حدیث  کے متعلق ابن  صلاح ؒ  کا قول ” اتحاف السادۃ  المتقین ” میں نقل کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس حدیث  کی کوئی قابل اعتماد اصل نہیں مل سکی ۔

حاصل یہ کہ شریعت کی طرف سے  نہ اپنے  خاندان  میں شادی کرنے کی ممانعت ہے اور نہ غیر خاندان میں شادی کرنے کی ترغیب  ۔ البتہ فطری  شرافت اور دینداری  اور مستقبل  میں موافقت جیسےامور کا خیال رکھنا بہر  حال ضروری ہے ۔ اور اگر اپنے  قریبی خاندان  میں شادی  کرنا کسی مصلحت  کے خلاف  ہو جس میں طبی مصلحت بھی داخل ہے  تو پھر  دوسرے خاندان  میں شادی کرنا بہتر ہے ۔

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ( بخاری  762،2)

 عن عبدالرزاق عن  معمرعن یحیی بن بای  کثیر  قال قال رسول اذا جاءکم من ترضون  امانتہ  وخلقہ فانکحوا کائنا من کان فان لاتفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیراً واقال عریض ( مصنف عبدالرزاق 6:153)

لاتنکحوا القرابۃ فان الولد یخلق ضاویا نحیفا  وال  المختصر لیس بمرفوع ( الفوائد المجموعۃ  فی الاحادیث  الموضوعۃ  للشوکانی 131)

 لاتنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا لیس بمرفوع تذکرۃ الموضوعات للفتی  137)

ان لا تکون من القرابۃ القریبۃ  فان ذالک  یقلل الشھوۃ قال رسول اللہ ﷺ لا تنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا اصلہ ضاووی وزنہ فاعول  ( ای نحیفاً ) قلیل  الجسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ ( اتحاف السادۃ المتقین لزبیدی 5:349)

اما قول بعض الشافعیۃ یستحب ان لا تکون المراۃ ذات  ۔۔۔الخ ( فتح الباری 135:9)

الاغتراب  فی الزوج

من توجیھات السلام الحکمیۃ فی اختیار  الزوجۃ تفضیل المراۃ۔۔۔الخ ( تربیۃ الاولاد فی الاسلام  1۔ 39)

اپنا تبصرہ بھیجیں