خلع کا حکم

فتویٰ نمبر:1028

سوال : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ خلع کسے کہتے ہیں ؟ ، اور اس میں مرد کی رضامندی لی جاتی ہے؟ اس میں عدت ہوتی ہے؟ اور اگر رجوع کرنا چاہیے تو کیا حکم ہے؟ حلالہ کرنا پڑے گا؟ 

نام: زید 

رہائش : پاکستان 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب حامدۃ ومصلیۃ و مسلمۃ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 

 جب شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہو اور شوہر طلاق بھی نا دیتا ہو تو اس صورت میں عورت کو 

اختیار حاصل ہے کہ وہ مہر یا کچھ پیسوں کے عوض خلع لے لے۔

” وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اﷲ فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلعہا بہ۔۔۔ الخ “

(ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ۲/۴۰۴)

خلع میں میاں اور بیوی دونوں کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہے، اگر خلع کے لیے شوہر راضی نا ہو تو عورت عدالت سے تنسیخ نکاح کے لیے رجوع کرے، عدالت اس نکاح کو فسخ کر دے، خلع کا فیصلہ نہ دے۔

في الملخص والإیضاح: الخلع عقد یفتقر إلی الإیجاب والقبول یثبت الفرقۃ ویستحق علیہا العوض۔

(الفتاوی التارتاخانیۃ، کتاب الطلاق، مکتبۃ زکریا دیوبند ۵/۵، رقم:۷۰۷۱)

جس طرح طلاق کی عدت ہوتی ہے اسی طرح خلع کی بھی 

عدت ہوتی ہے اور طلاق کی طرح خلع کی عدت بھی تین ہی حیض ہے، اگر حیض نا آتا ہو تو قمری حساب سے تین مہینے عدت گذارے ، حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے ۔

کما فی الھدایۃ : ” اذا طلق الرجل امراتہ طلاقا بائنا او رجعیا او وقعت الفرقۃ بینھما بغیر طلاق وھی حرۃ ممن تحیض فعدتھا ثلاثۃ اقراء ، وان کانت ممن لا تحیض من صغر او کبر فعدتھما ثلاثہ اشھر ، وان کانت حاملا فعدتھا ان تضع حملھا ” 

( ھدایۃ : کتاب الطلاق ، باب العدۃ ، ٢ / ٤٢٨)

 خلع کے بعد اگر رجوع کرنا چاہیے تو نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ کرنا ہوگا جو عدت کے اندر بھی کرسکتے ہیں اور عدت کے بعد بھی۔ خلع طلاق بائن کے برابر ہے، اس لیے حلالہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

عن ابن عباسؓ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم “جعل الخلع تطلیقۃ بائنۃ۔ “

(سنن الدار قطني، کتاب الطلاق، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۳۱، رقم:۳۹۸۰)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

اہلیہ محمد ارسلان عفی عنھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر ۔ 

١٢ مئی ٢٠١٨

٢٥ شعبان ١٤٣٩

اپنا تبصرہ بھیجیں