خواجہ سرا کو پیسے دینے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

جو خواجہ سرا ہمارے گھر میں عورتوں کے بھیس میں، عورتوں کے کپڑے پہن کر، عورتوں کی طرح بال بنا کر آتے ہیں میک اپ کرکے پیسے مانگنے آتے ہیں یا راستے میں روک کر پیسے مانگتے ہیں، کیا ان کو پیسے دینا جائز ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے جس شخص کے پاس ایک دن کا کھانا اور ستر ڈھانکنے کے لیے کپڑا ہو، یا وہ شخص کمانے پر قادر ہو، اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی انتہائی مجبوری میں سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا جائز نہیں ہے۔ حدیث پاک میں اس کی ممانعت آئی ہے۔

چنانچہ سنن أبی داؤد:(2/189)میں روایت ہے:

قال رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم:‏‏‏‏ “من سأَل وله ما يغنيه جاءت يوم القيامة خموش أو خدوش أو كدوح في وجهه”.

ترجمہ:

“جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا”۔

لہذا جن لوگوں کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، خواہ وہ خواجہ سرا کیوں نہ ہوں، تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی ذریعے سے ان کا ضرورت مند ہونا ثابت ہوجائے تو پھر انہیں دینے کی گنجائش ہے۔

تاہم اگر کسی نے پیشہ ور بھکاری کو بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، البتہ بغیر ضرورت کے لینے والا گناہ گار ہوگا۔

بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ سے فتویٰ ملاحظہ ہو:

“بازار یا گھروں میں جاکر مانگنے والے بچے ہوں یا بڑے جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، تاہم اس میں متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا جائے، انہیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ شائستگی کے ساتھ معذرت کرلی جائے۔ البتہ اگر کسی نے نفلی صدقہ انہیں دے دیا تو دینے والے کو صدقے کا ثواب ہوگا، نہ دینے سے گناہ نہیں ہوگا۔

صحيح مسلم میں ہے:

“حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثراً؛ فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر”.

(صحيح مسلم، رقم الحديث: ١٠٤١)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو آدمی اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتاہے، وہ انگارا مانگتاہے، (اب اس کی مرضی ہے) چاہے تو کم مانگے یا زیادہ مانگے۔ )

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن

فتوی نمبر :144109203016

تاریخ اجراء :20-05-2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)قال النبي صلى الله عليه و سلم: “ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم”.

(صحيح البخاري: 2 / 536)

ترجمہ:

“انسان دنیا میں برابر سوال کرتا رہتا ہے یہانتک کہ وہ قیامت میں اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی”۔

(2)”ولا یحل أن یسأل شیئا من القوت من له قوت یومه بالفعل أو بالقوۃ کالصحیح المکتسب ویأثم معطیه إن علم بحاله لاعانته علی المحرم”.

(الدرالمختار: 2/354)

(3)(ولا يحل أن يسأل الخ) قيد بالسؤال لان بدونه لا يحرم.بحر.وقيد بقوله: شيئا من القوت لان له سؤال ما هو محتاج إليه غير القوت كثوب. شرنبلالية.وإذا كان له دار يسكنها ولا يقدر على الكسب قال ظهير الدين: لا يحل له السؤال إذا كان يكفيه ما دونها.معراج. ثم نقل ما يدل على الجواز وقال: وهو أوسع، وبه يفتى. قوله: (كالصحيح المكتسب) لانه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم.بحر.

قوله: (ويأثم معطيه الخ) قال الاكمل في شرح المشارق: وأما الدفع إلى مثل هذا السائل عالما بحاله فحكمه في القياس الاثم به لانه إعانة على الحرم، لكنه يجعل هبة وبالهبة للغني أو لمن لا يكون محتاجا إليه لا يكون آثما “.

(حاشية رد المحتار: 2 / 389)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں