کیا عورت کا تہجد کے لیے مسجد نبوی جانا ناپسندیدہ ہے؟

فتوی نمبر:5075

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

عمرہ کے سفر میں عورتوں کے لیے اپنے ہوٹل میں نماز پڑھنا افضل ہے اور عورتوں کو ہوٹل میں ہی حرم کی نماز کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن پوچھنا یہ ہے کہ تہجد کے لیے اگر حرم جانے کا ارادہ کریں تو اٹھنا آسان اور حرم میں انوارات کہ وجہ سے روحانی کیفیت زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ مکہ میں تو طواف کی نیت سے جا سکتے ہیں لیکن مدینہ میں کیونکہ زیارت کا وقت نہیں ہوتا تو صرف تہجد پڑھنے حرم جانا نا پسندیدہ تو نہیں؟

و السلام

الجواب حامدا و مصليا

و علیکم السلام!

جس طرح عورتوں کا اپنے وطن میں تنہا گھروں میں نماز پڑھنا افضل وبہتر ہے، اسی طرح مکہ ومدینہ میں نماز کا جو ثواب حرم اور مسجد نبوی کا ہوتا ہے وہ ان کو گھروں پر پڑھنے میں زیادہ ملتا ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

عن ام حمید امرأ ۃ ابی حمید الساعدی رضی اﷲ عنہا انھا جاء ت الی النبی ﷺفقالت یا رسول اﷲ انی قد احب الصلوٰۃ معک قال قد علمت انک تحبین الصلوٰۃ معی وصلوتک فی بیتک خیر من صلوٰتک فی حجر تک وصلوتک فی حجر تک خیر من صلوٰتک فی دارک وصلو تک فی دارک خیر من صلوتک فی مسجد قومک وصلو تک فی مسجد قومک خیر من صلاتک فی مسجدی قال فامرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شیٔی من بیتھا واظلمہ وکانت تصلی فیہ حتیٰ لقیت اﷲ عزوجل [۱]

ترجمہ:

حضرت ام حمید رضی اﷲ عنہا نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے ، آپﷺ نے فرمایا: تمہارا شوق بہت اچھا ہے (اور دینی جذبہ ہے ) مگر تمہاری نماز اندرونی کو ٹھی میں کمرہ کی نماز سے بہتر ہے اور کمرہ کی نماز گھر کے احاطہ کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کے احاطہ کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلہ کی مسجد کی نماز میری مسجد(یعنی مسجد نبوی ) کی نماز سے بہتر ہے ، چنانچہ حضرت ام حمید رضی اﷲ عنہا نے فرمائش کر کے اپنے مکان کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتاتھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی وہیں نماز پڑھاکرتی تھیں یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور میں حاضر ہوئیں۔

اس حدیث کے مطابق فرائض و نوافل (جس میں تہجد کی نماز بھی شامل ہے) کوئی فرق نہیں۔ 

مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ عورت حرمین شریفین میں بھی نماز کے لیے مسجد کا رخ نہ کرے۔ بعض لوگ اس سلسلے میں خواہ مخواہ بے جاسختی کرتے ہیں۔ اگر کوئی عورت شوق میں مسجد الحرام یا مسجد نبوی میں با پردہ ہو کر جائے اور وہیں پر نماز پڑھے اور مسجد اور جماعت کے آداب کا بھی پورا لحاظ ہو تو اس کی نماز بلا کراہت ادا ہوجاتی ہے اور اس کو نماز کا ثواب بھی ملےگا ہے۔ [۲]، [۳]

لمحہ فکریہ: اگرچہ حنفی مسلک کے مطابق عورت کا اپنے رہائش گاہ میں نماز پڑھنا ہی افضل ہے – اور یہ بات حدیث سے ثابت بھی ہے- اس سے یہ اخذ کرنا کہ عورت مسجد الحرام یا مسجد نبوی بھی جانا نا پسندیدہ ہے، یہ کچھ متشدد رائی معلوم ہوتی ہے، خصوصا جب بہت ساری خواتین زندگی میں ایک ہی بار حرمین شریفین کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکتی ہیں۔ نیز جہاں ایک طرف روایات سے عورت کا اپنے رہائش گاہ میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا گیا، وہاں دوسری طرف حدیث میں یہ بھی آیا ہے:

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ لاَ تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ ‏”‏ ‏.

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: “اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکو – مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔” [۳]۔ 

دوسری طرف خواتین بھی اس معاملے میں اعتدال سے کام لیں اور حرمین شریفین میں جماعت سے نماز پڑھنا اپنے لیے لازم نہ سمجھیں اور نہ ہی مردوں کی طرح اس کی پابندی کریں۔مسجد جاتے ہوئے جماعت میں شرکت کے بجائے مسجد کی زیارت اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور صلوة و سلام کی نیت کرلیا کریں۔

▪ [۱] الترغیب والترہیب: ۱/۱۷۸

▪ [۲] ): وعنہ : قال ’’ماصلت امرأۃ (فی مصلی) خیرلھا من قعر بیتھا الا ان یکون المسجد الحرام او مسجد النبی ﷺ الا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفیھا۔‘‘(رواہ الطبرانی فی الکبیر، ورجالہ رجال الصحیح (مجمع الزوائد،۱۵۵/۱)

قولہ ’’وعنہ‘‘ الخ قلت: فیہ دلالۃ علی جواز خروج النساء مطلقا سواء کن شواب او عجائز للصلاۃ فی مسجد الحرام او مسجد النبی ﷺ وعلیہ عمل اھل الحرمین الیوم ولکن ینبغی تقییدہ بوقت الضرورۃ، کما اذا حضرت المسجد للطواف فی الحج والعمرۃ، فلا بأس لھا بان تصلی فیہ وحدھا او جماعۃ او حضرت المسجد النبوی للتسلیم والصلاۃ علی النبی ﷺ فلا بأس لصلاتھا فی المسجد تحیۃ او مکتوبۃ واما ان تأتی المسجد الحرام او المسجد النبوی لاجل الصلاۃ فحسب فینا فیہ قولہ ﷺ ’’صلاتک فی بیتک خیر من صلاتک فی حجرتک‘‘ الی ان قال ’’ومن صلاتک فی مسجدی‘‘۔ واللہ تعالیٰ اعلم (اعلاء السنن، ۲۴۴/۴)

▪ [۳] سنن ابی داود، رقم الحدیث: ۵۶۷

فقط ۔ واللہ اعلم 

قمری تاریخ: ۲۵صفر المظفر ۱۴۴۱

شمسی تاریخ: ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۹

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6

اپنا تبصرہ بھیجیں