کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ نبی کریم ﷺ کی تدفین میں شریک تھے

ایک پیر صاحب سے ٹی وی پر سوال پوچھا گیا کہ کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ نبی کریم ﷺ کی تدفین میں شریک تھے؟

جس پر انہوں نے معترضانہ انداز میں یوں جواب دیا کہ “اہل سنت والجماعت کی کتب میں جو لکھا ہے، میں تو وہ لکھا ہوا آپ کو بتاسکتا ہوں۔ چنانچہ جامع الاحادیث میں یہ بات موجود ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ نبی کریمﷺ کی تدفین میں شریک نہیں تھے الخ” 

اس کے بعد انہوں نے یہی روایت کنزالعمال، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ اور طبقات ابن سعد سے بھی نقل کی ہے۔ اور ہر روایت کو سنانے کے بعد بار بار یہی کہتے رہے کہ ان دونوں حضرات نے تدفین کے عمل میں شرکت نہیں کیا اور آخر میں کہا:

“جن افراد نے نبی کریمﷺ کو غسل دیا تھا انہوں نے ہی آپﷺ کو دفن کیا، اصحاب رسول نے آپﷺ کی تدفین میں کوئی شرکت نہیں کی، مذکورہ افراد نے آپﷺ کی تدفین کی۔ یہ طبقات ابن سعد میں بھی ہے، کنزالعمال کے الفاظ بھی موجود ہیں کہ آپ کی تدفین 4 افراد کے ہاتھوں میں عمل میں لائی گئی، آپﷺ کی تدفین میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ شامل نہیں تھے۔ کنزالعمال کا یہ حوالہ موجود ہے، آپ نے حکومت کے معاملات کو نبی کریمﷺ کے تجہیز و تکفین کے معاملات پر فوقیت دی”

میرا سوال یہ ہے کہ کیا پیر صاحب کی بات درست ہے؟

سائل: عبداللہ

لانڈھی کراچی

الجواب حامداومصلیا 

واضح رہے کہ کتب حدیث اور تاریخ و سیرت کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ آپﷺ کے انتقال کے بعد آپ کی تجہیز و تکفین سے لیکر آپ کی تدفین تک حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سمیت مدینہ منورہ میں موجود دیگر صحابہ کرام حاضر رہے اور اہل بیت سمیت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین  نے تمام اہم امور حضرات شیخین سے پوچھ پوچھ کر سرانجام دیئے۔

(البدایة والنھایة: 280/5 )

چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب نبی کریمﷺ کی وفات کی اطلاع حضرت ابوبکرؓ کو ملی تو آپ مدینة سے باہر کام سے گئے ہوئے تھے، اطلاع ملتے ہی فورا حاضر ہوئے اور حجرہ مبارکہ میں داخل ہوکر نبی کریمﷺ کے پیشانی مبارک کو عقیدت سے چوما اور افسوس سے فرمایا “وانبیاہ! واخلیاہ!واصفیاہ” اور اس کے بعد مسجد میں جاکر تمام صحابہ کرامؓ کے سامنے آپﷺ کی وفات کی تصدیق کی اور ایسا بلیغ اور مؤثر خطبہ دیا جس سے تمام صحابہ کرامؓ کو تسلی ہوئی۔

(مسند احمد 22/40)

نیز صحابہ کرام نے آپﷺ کی تدفین سے متعلق آپس میں مشورہ کیا کہ آپﷺ کی تدفین کہاں کی جائے تو حضرت ابوبکرؓ نے ہی فیصلہ فرمایا کہ آپﷺ کی تدفین آپ ہی کے حجرے میں کی جائے، کیونکہ میں نے نبی کریمﷺ سے ایسا ہی سنا:

(سنن ابن ماجہ: 520/1)

(البدایة والنھایة۔دار احیاء التراث العربی 288/5)

نیــــز آپﷺ کی قبر مبارک کھودنے کا موقع آیا تو صحابہ کرام اس سلسلہ سے متردد تھے کہ آپ کے لیے بغلی قبر (لحد) کھودی جائے یا شق کھودی جائے؟ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ فرمایا کہ بغلی قبر کھودنے والے (حضرت ابوعبیدہ بن جراح) اور شق قبر کھودنے والے (حضرت ابو طلحہ) دونوں کو بلا بھیجو، جو پہلے آئے گا، اس سے قبر کھود والی جائے گی:

(سنن ابن ماجہ: 497/1)

جب آپﷺ کی تدفین مکمل ہوگئی تو سب سے پہلے گھر کے افراد نے آپﷺ کی نماز جنازہ ادا کی، اور اس کے بعد دیگر صحابہ کرامؓ نے گروہ در گروہ آپ کی نماز جنازہ پڑھی، سب سے پہلے جس گروہ نے نماز جنازہ پڑھی، ان میں سرفہرست حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔

(البدایة والنھایة۔دراحیاء التراث العربی 286/5)

نیــز کتب سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں جن سے شیخین اور دیگر صحابہ کرامؓ کا اس موقع پر وہاں موجود ہونا واضح طور پر معلوم ہوتا ہے، نیـز یہ بات عقلا بھی بہت بعید ہے کہ جو حضرات زندگی بھر آپﷺ کے ایک اشارے پر اپنی قیمتی سے قیمتی اشیاء حتی کہ اپنا کاروبار، آل اولاد اور گھر بار اور اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور جو انتہائی سمجھدار، جہاں دیدہ اور باہمت ہونے کے باوجود آپﷺ کی وفات پر غم کی شدت سے اپنے ہوش و حواس تقریبا کھو بیٹھے تھے، وہ صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کی تدفین میں شریک نہ ہوئے ہوں، اہل سنت میں سے کسی بھی شخص کے لیے اس بات پر یقین کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرامؑ کے بعد سب سے افضل جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ہے اور صحابہ میں سب سے افضل حضرات شیخینؓ کی ذات بابرکات ہے۔

اس کے برخلاف بعض اھل باطل اور گمراہ طبقہ (جن کا صحابہ کرام اور شیخینؓ سے بغض مشہور ہے) انہوں نے ان نفوس قدسیہ سے متعلق طرح طرح کی باتیں گھڑ رکھی ہیں، انہی میں سے ایک یہ بات بھی گھڑی ہے کہ حضرات شیخین اور دیگر صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کی تدفین میں شرکت نہیں کی تھی۔ جس سے ان  کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ نعوذباللہ ان حضرات کا آپﷺ سے صرف اوپر اوپر کا تعلق تھا، کوئی دلی تعلق نہیں تھا اور یہ کہ نعوذباللہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد ان حضرات کو حکومت حاصل کرنے کی فکر لگ گئی تھی، جبکہ تجہیز و تکفین کا عمل صرف گھر کے افراد (اھل بیت) نے انجام دیا، جس کی وجہ سے حضرت علیؓ خلافت حاصل نہ کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری باتیں خلاف واقعہ اور ان پاک ہستیوں پر بہت بڑا بہتان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ:

 نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام شدید غم و اندوہ کی کیفیت سے دوچار ہوگئے تھے، جبکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فورا تمام صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے تسلی آمیز خطبہ دیا، جس سے صحابہ کرامؓ کی دل جمعی ہوئی اور حواس سنبھلنے لگے۔

 وفات کے تھوڑی دیر بعد انصار صحابہ کرامؓ کو اپنی حق تلفی کا اندیشہ اور خلافت کی فکر لاحق ہوئی، جو کہ ایک فطری بات تھی۔ انصار صحابہ کرامؓ اس سلسلے میں بنو ساعدہ کے باغ میں جمع ہوگئے اور آپس کے مشورہ سے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کے 2 خلیفہ ہونے چاہیے۔ ایک انصار میں سے اور دوسرے مہاجرین میں سے، یہ بہت نازک موقع تھا جس کا اگر بروقت تدارک نہ کیا جاتا تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بدخواہان اسلام مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے تفرقہ کا بیج بو سکتے تھے۔ حضرات شیخین نے اللہ پاک کی توفیق سے یہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس کا فوری تدارک کیا اور انصار کے پاس تشریف لے جاکر اس مسئلہ کو باہمی مشورے سے حل کیا۔

 بنو ساعدہ میں انصار کے جمع ہونے کا واقعہ وفات والے دن (یعنی پیر والے دن) ہی کا ہے، جو کہ وفات کے تھوڑی دیر بعد پیش آیا اور یہ مسئلہ اسی دن  حضرات شیخینؓ کی برکت سے کچھ ہی دیر میں باہمی مشورے سے حل ہوگیا۔

 جبکہ راجح قول کے مطابق آپ ﷺ کی تدفین وفات کے تقریبا ڈیرھ دن بعد منگل شام کو ہوئی۔

 بنو ساعدہ کے واقعہ میں وہاں پر موجود انصار و مہاجر صحابہ نے تھوڑی دیر میں ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ عمومی بیعت اگلے روز مسجد میں ہوئی۔ 

(صحیح البخاری۔ نسخہ طوق النجاة: ص 174)

© حضرت ابوبکرؓ وہاں بیعت لینے کے ارادے سے نہیں گئے تھے بلکہ معاملات سلجھانے کی خاطر گئے تھے، لیکن وہاں موجود صحابہ کرامؓ نے باہمی مشورے سے اتفاق کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ یہ کام کسی سابقہ منصوبہ بندی کے بغیر اچانک ہوا تھا۔

(مصنف ابن ابی شیبة: ترقیم عوامة 564/14)

(مصنف ابن ابی شیبة: ترقیم عوامة 563/14)

اس میں حضرت ابوبکرؓ کی چاہت شامل نہیں تھی اور نہ انہوں نے کبھی خلافت کی خواہش کی تھی بلکہ صرف مسلمانوں کوباہمی تفرقہ سے بچانے کی خاطر صحابہؓ کے انتہائی اصرار پر آپؓ نے خلافت قبول فرمائی تھی۔

(مستدرک علی الصحیحین للحاکم: 70/3 )

 غسل اور کفن دینے کا عمل حضرت علیؓ نے انجام دیا، جس میں حضرت عباس اور حضرت اسامہؓ ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ یہ تمام حضرات “اھل بیت” یعنی گھر کے افراد میں سے تھے۔ نبی کریمﷺ کو غسل دینا سب سے پہلے انہی کی ذمہ داری اور ان ہی کا اولین حق تھا، جیسا کہ ہر وفات پانے والے کو غسل دینا خود اس کے گھر والوں کا حق ہوتا ہے، اگرچہ باہر کے لوگ ان سے افضل ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس مختصر کام کے لیے گھر کے چند افراد ہی کافی تھی جبکہ گھر بھی بہت چھوٹا تھا۔ سارے صحابہؓ موقع پر موجود ہونے اور چاہت کے باوجود اس میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔

(سنن ابی داؤد 205/3)

 نیـز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے اھل بیت کے حق میں ہی تجہیز و تکفین کی وصیت فرمائی تھی۔

(البدایة والنھایة۔ دار احیاء التراث العربی: 282/5)

(البدایة والنھایة۔ دار احیاء التراث العربی: 285/5)

 تجہیز و تکفین سے لیکر تدفین تک تمام امور کے انجام دیئے جانے کے وقت یہ حضرات حجرہ مبارکہ کے آس پاس موجود تھے، اور اس کے تمام انتظام میں شامل تھے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا روایت سے ثابت ہے:

(منھاج السنة 210/9)

© اھل بیت کے علاوہ بھی مدینة منورة میں موجود تقریبا تمام صحابہ کرامؓ نے نماز جنازہ فردا فردا ادا کی، حضرات شیخینؓ بھی ان تمام معاملات میں پیش پیش رہے۔

(البدایة والنھایة۔ دار احیاء التراث العربی: 286/5)

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 62/3)

 تدفین کے موقع پر بھی تمام صحابہ کرامؓ موجود تھے۔

(صحیح البخاری۔ نسخہ طواق النجاة ص:29)

(سنن الترمذی 588/5)

اس تمام تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرات شیخین پر تدفین کے موقع پر موجود نہ ہونے اور بیعت لینے میں مصروف ہونے کا الزام لگانا بالکل غلط ہے اور یہ بات اس لیے بھی ناقابل فہم ہے کہ بنو ساعدہ میں ہونے والی بیعت پہلے دن (بروز پیر) وفات کے تھوڑی دیر بعد ہوگئی تھی، جبکہ آپﷺ کی تدفین اگلے دن شام کو ہوئی تھی۔

(مسند احمد مخرجا: 3/41)

(البدایة والنھایة۔ دار احیاء التراث العربی 276/ 5)

جہاں تک سوال میں ذکر کردہ روایات کا تعلق ہے تو در حقیقت یہ متعدد روایتیں نہیں، بلکہ ایک ہی روایت ہے، جو مختلف کتابوں سے نقل کی گئی ہے۔ یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے جو دیگر کتب (جامع الاحادیث، کنزالعمال) وغیرہ میں مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ہی نقل کی گئی ہے، جبکہ مسند احمد اور طبقات میں یہ روایت ہمیں نہیں مل سکی۔

جب مصنف ابن ابی شیبہ کے مختلف نسخوں میں اس روایت کو دیکھا گیا تو کچھ نسخوں میں اس کا دوسرا حصہ سوال میں ذکر کردہ روایات کے مطابق “فد فن قبل ان یرجعا” ہے جبکہ شیخ عوامہ کی تحقیق سے شائع ہونے والے نسخے میں “فبویعا قبل ان یرجعا” ہے۔ جس سے سوال میں ذکر کیے گئے پیر صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ 

(مصنف ابن ابی شیبہ۔ترقیم عوامة 568/16)

نیز یہ روایت آپﷺ کی وفات کے واقعہ کے وقت موجود کسی صحابیؓ کا قول بھی نہیں، بلکہ حضرت عروہ بن زبیر کا اپنا قول ہے، جوکہ صحابی نہیں تھے اور نہ اس واقعہ کے وقت موجود تھے بلکہ ان کی پیدائش ہی آپﷺ کی وفات کے بہت عرصے بعد حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری دور میں یا حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں ہوئی، اس لیے اس میں نقل کی غلطی کا امکان واضح ہے، اس لیے دیگر واضح نصوص کے ہوتے ہوئے حضرت عروہ کا اپنا قول قابل قبول نہیں ہوگا۔

(تقریب التھذیب ص: 289)

واللہ تعالی اعلم

محمد طلحہ ہاشم 

دارالافتاءجامعہ دارالعلوم کراچی

6 جمادی الاولی 1441ھ

2 جنوری 2020ء

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1001125353590043/

اپنا تبصرہ بھیجیں