کیا حضرت عائشہ کا حضور پاک ﷺ سے اعتکاف کی اجازت سے عورت کا مسجد میں اعتکاف ثابت ہوتا ہے؟

سوال:ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے مسجد میں اعتکاف کی اجازت مانگی تھی.تو اس وجہ سے اب یہ کہا جاتا ہے کہ اعتکاف گھر پر ہوتا ہی نہیں ۔ تو ﺫرا تفصیل کے ساتھ احادیث کا حوالہ بھی دے دیجیے،جس میں عورتیں گھر پر اعتکاف کریں۔

مریم کراچی

الجواب بعون الملک الوھاب

” حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَکِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَکُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَائً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ثُمَّ يَدْخُلُهُ فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ خِبَائً فَأَذِنَتْ لَهَا فَضَرَبَتْ خِبَائً فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَائً آخَرَ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی الْأَخْبِيَةَ فَقَالَ مَا هَذَا فَأُخْبِرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَالْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ فَتَرَکَ الِاعْتِکَافَ ذَلِکَ الشَّهْرَ ثُمَّ اعْتَکَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ”

ترجمہ: مشہور تابعیہ حضرت عمرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، میں آپ کے لیے ایک خیمہ نصب کر دیتی تھی، آپ فجر کی نماز پڑھ کر اس میں داخل ہوتے، پھر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خیمہ نصب کرنے کی اجازت مانگی، انہوں نے اجازت دیدی تو حفصہ نے بھی ایک خیمہ نصب کیا، جب زینت بن جحش نے دیکھا تو انہوں نے بھی ایک دوسرا خیمہ نصب کیا۔ جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خیمے دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خیمے کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم ان میں نیکی سمجھتے ہو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ میں اعتکاف چھوڑ دیا، پھر شوال کے ایک عشرہ میں اعتکاف کیا۔

یہ حدیث جس کو دلیل کے طور پر پیش کر کے عورت کے گھر کے اعتکاف کا انکار کیا جاتا ہے ۔تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ اس روایت میں یہ کہیں نہیں کہ ازواج مطہرہ نے اعتکاف میں بیٹھنے کی غرض سے خیمہ نصب کیا تھا بلکہ اس میں تو یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کی خاطر ہر زوجہ آپ کے لیے خیمہ لگارہی تھیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجی رقابت کا حصہ قرار دیتے ہوئے ناپسند فرمایا۔

بالفرض تسلیم کربھی لیا جائے کہ حضرت عائشہ نے اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت مانگی تھی اور آپ ﷺ نے اجازت دے دی تھی لیکن جب صبح ہوئی تو دیگر ازواج مطہرات کے خیمے دیکھ کر آپ ﷺ نے اس کے مفاسد کو قوی جانا اور اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیا یہ اپنے لیے اس کو نیکی سمجھ بیٹھی ہیں؟جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا پسندیدہ نہیں۔

نیز اس کے علاوہ کوئی بھی صریح حدیث ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ازواج مطہرات یا دیگر صحابیات نے اعتکاف مسجدمیں کیا ہو۔

اس حدیث کے بارے میں عمدۃ القاری میں مذکور ہے :

” و قال: ابراھیم بن عبلۃ فی قولہ (آلبر ترون) دلالۃ علی انہ لیس لھن الاعتکاف فی المسجد اذ مفھومہ لیس ببرلھن وقال بعضھم ولیس ما قالہ بواضح قلت بلی ھو واضح لانہ اذا لم یکن برالھن یکون فعلہ غیر برای غیر الطاعۃ وارتکاب غیر طاعۃ حرام ویلزم من ذالک عدم الجواز۔

( عمدۃ القاری(۱۱/۱۴۸) یعنی ابراہیم بن عبلہ نے اس قول کو (کیا وہ اس کو اپنے لیے نیکی سمجھ بیٹھی ہیں)مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کے عدم جواز پر محمول کیا ۔

غور طلب بات ہے کہ اگر عورت کے لیے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضورﷺ نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا؟

اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کاحکم کیوں دیا ؟

اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے،یا کیا یہ اپنے لیے اس کو نیکی سمجھ بیٹھی ہے ؟ کے الفاظ سے اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا؟

اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا؟

نیز اس حدیث کے الفاظ ہی اس پر گواہ ہے ،غور کیجیے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور میں ان کے لیے خیمہ نصب کرتی تھیں۔آپ رضی اللہ عنھا نے اپنے اعتکاف کی اجات مانگی تو مل گئی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلی بار تھا کہ حضرت عائشہ نے مسجد نبوی میں اپنے لیے خیمہ نصب کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ورنہ آپ یہ فرماتیں کہ آپ ﷺ اور میں آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے ،میں آپ ﷺ اور اپنے لیے مسجد میں خیمے نصب کرتی تھیں۔

بعض احادیث میں یہ مذکور ہے کہ ازواج مطہرات آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اعتکاف کیا

اپنا تبصرہ بھیجیں