کیامستحب اعمال نہ کرنا خلاف اولیٰ ہے؟

سوال: کیا مستحب اعمال کو نہ کرنا یا اسکے خلاف کرنا مکروہ تنزیہی یا خلاف اولی ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب : مستحب عمل کو نہ کرنا مکروہ تنزیہی نہیں ہے۔ تاہم اگر اس معنی میں کوئی خلاف اولی کہے کہ اولی اور پسندیدہ کام کرنے کا موقع ملا لیکن پھر بھی نہ کیا بلکہ اس کے خلاف کیا تو عرف عام کے لحاظ سے خلاف اولی کہا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے اس کو کوئی گناہ ہوگا نہ اس پر نکیر جائز ہے.

===========================

لما فی الدر المختار:

و ھو ما فعلہ النبیﷺ مرۃ و ترکۃ اخری۔ وفی رد المحتار: و ھل یکرہ تنزیھا؟ فی “البحر”: لا و نازعہ فی “النھر” بما فی “الفتح” من الجنائز والشھادات ان مرجع کراھۃ التنزیہ خلاف الاولی۔۔ قال: ولا شک ان ترک المندوب : خلاف الاولی۔

ان النوافل من الطاعات کالصلاہ والصوم فعلھا اولی من ترکھا بلا عارض ولا یقال ان ترکھا مکروہ تنزیہا …… قولہ:(وفضیلۃ) ای: لان فعلہ یفضل ترکہ فھو بمعنی فاضل او لانہ یصیر فاعلہ ذا فضیلہ بالثواب ط قولہ :(وھو الخ)یرد علیہ ما رغب فیہ علیہ الصلاہ والسلام ولم یفعلہ؛ فالاولی ما فی “التحریر” ان ما واظب علیہ مع ترک ما بلا عذر سنہ، و ما لم یواظب علیہ مندوب و مستحب وان لم یفعلہ بعد ما رغب فیہ اھ”بحر”۔

(فتاوی شامی: ج1 ص 267)

واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

1443/1/12

27/8/2021

اپنا تبصرہ بھیجیں