کیا و لا الضالین پڑھنا چاہیے یا ولا الدالین؟

سوال: کسی شخص نے نماز میں ولا الضالین کے بجائے ولا الدالین پڑھا تو اس کی نماز ہو جائے گی؟

جواب:واضح رہے کہ نماز کی قراءت میں ایسی غلطی کرنا کہ جس سے لفظ کا معنی ہی بدل جائے تو اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

لہذا اگر کوئی جان بوجھ کر “ض” کو “د” پڑھتا ہے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، البتہ اگر ”ض“ کو اس کے مخرج سے پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن پھر بھی آواز ”د“یا ”ظ“کے مشابہ ہوجاتی ہو تو پھر نماز ادا ہو جائے گی۔

===============

حوالہ جات:

۱۔وان کان الخطأ بابدال حرف بحرف،فان امکن الفصل بینھما بلا کلفۃ کالصّاد مع الطّاء فاتفقوا علی انہ مفسد،وان لم یمکن الا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فاکثرھم علی عدم الفساد لعموم البلوی۔

(الدر المختار: ج ۲ /۳۳۹ )

۲۔وفي فتاویٰ قاضي خان:

”وإن تغیرالمعنی تغیرًا فاحشًا نحو أن یقرء: لا اله، ویقف ثم یبتدء بقوله: إلا هو -إلی قوله- قال عامة العلماء: لاتفسد صلاته؛ لما قلنا، وقال بعضهم: تفسد صلاته اهـ“.

قلت: الاختلاف في الفساد یوجب الوجوب”.

وفیہ:”فإن کان لاینطق لسانه في بعض الحروف -إلی قوله- لایؤم غیره، کذا الرجل إذاکان لایقف في مواضع الوقف اهـ“. والله أعلم‘‘.

(امداد الفتاوی ج ۱/ ۲۲۲)

۳۔ فسادِ صلاۃ اس وقت ہے جب بلا مشقت دو حرفوں میں تمیز کرسکے اور ضالین کو دال سے پڑھنا مفسدِ صلاۃ اسی بنا پر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جس طرح سے ضالین کو اکثر لوگ پڑھتے ہیں وہ دال نہیں ہے، جس سے بلا مشقت امتیاز ممکن ہے؛ البتہ اگر کوئی شخص خالص دال پڑھے گا تو اس کی نماز کو فاسد کہا جاوے گا۔ اور جس طرح سے اکثر پڑھنا اس کا متعارف ہے گو بوجہ مشق نہ کرنے کے وہ صحیح نہیں ہے، مگرصحیح حرف کوسننے والا اس امر کو پہچان سکتا ہے کہ یہ طریق متعارف اس کے مشابہ ہے، اس طرح کہ تمیز دونوں میں شاق ہے، حتیٰ کہ جس شخص کو ضاد کے مخرج صحیح سے مشق کرائی جاتی ہے اور اس کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے، وہ ادا کرنے کے وقت کبھی کبھی اس متعارف طریق کو ادا کر بیٹھتاہے اور دونوں میں اس کو تمیز دشوار ہوتی ہے؛ اس لیے اس طریق متعارف کو داخل دال کرکے مفسد صلاۃ کہنا بعید ہے۔

دوسرا امر یہ معلوم ہوا کہ ضاد کی جگہ ظاء پڑھنے کو مفسدِ صلاۃ عند الاکثر نہ کہنا علی الاطلاق نہیں ہے؛ بلکہ اس وقت ہے جب کہ بلا عمد ہو، ورنہ وہ بھی مفسدِ صلاۃ ہے۔

تیسرا امر یہ معلوم ہواکہ ولا الضالین میں ظاء کاپڑھنا جو مفسد نہیں ہے، اس کی بنا یہ نہیں ہے کہ ضاد کی جگہ عمداً ظاء کا پڑھنا جائز ہے، ورنہ ’’مغضوب علیهم‘‘ اور ’’ضالین‘‘ میں کیا فرق تھا کہ ’’مغضوب علیهم‘‘ میں تو ظاء کو مفسد بتا رہے ہیں اور ضالین میں غیر مفسد؛ بلکہ مبنیٰ اس کا یہ ہے کہ ضالین میں فسادِ معنی نہیں ہوتا، جیسا قاموس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظل بالظاء کے معنی لیل اور جنح اللیل اور سواد السحاب کے بھی ہیں، پس ظالین کے معنی مثلاً داخل فی الظلمات ہوں گے جوحاصل ہے ضلال بالضاد کا

اور تجوید کی مقدار واجب صرف تصحیحِ حروف اوررعایتِ وقوف ہے، اس طرح کہ تغیر مراد نہ ہوجاوے باقی مستحسن ۔

(امداد الفتاوی: ج۲ / ۲۲۱ )

واللّٰہ اعلم بالصواب

۲۹ربیع الاول ۱۴۴۳

۴ نومبر ۲۰۲۱

اپنا تبصرہ بھیجیں