کیایہ حدیث کے الفاظ ہیں ؟

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:138
من کنت مولاه فهذا علي مولا
یہ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کیا یہ مستند اور صحیح حدیث ہے۔ نیزاس حدیث کے ضمن میں مسلمانوں کو کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟
 
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
’’جس کا میں مولیٰ اس کا علی مولیٰ‘‘یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ، شیعہ حضرات اس سے بھی حضرت علیؓ کے خلیفہ بلافصل ہونے اور اپنے خودساختہ نظریۂ امامت پر استدلال کرتے ہیں ، لیکن اس حدیث کی مکمل تفصیل اور اس کے پسِ منظر کی وضاحت سے شیعہ حضرات کے استدلال کی حقیقت واضح ہوجائیگی۔اس حدیث کا پسِ منظر یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو رمضان 10 ہجری میں خُمس (مالِ غنیمت کا پانچواں حصّہ) وصول کرنے کیلئے یمن بھیجا ، اور جب آپﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر 4؍ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو آپﷺ نےحرمِ مکہ میں پہنچ کر پہلے عمرہ ادا کیا اور پھر چار یوم تک مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا ، ان چار دنوں میں حضرت علیؓ یمن سے واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور خُمس حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس سفر کے دوران بعض رفقاءِ سفر کے دل میں حضرت علیؓ کی طرف سے کچھ بدگمانی اور کدورت پیدا ہوگئی تھی ، حضورﷺ جو حجۃ الوداع کے اس عظیم اور اہم ترین سفر میں قدم قدم پر امّت کو گمراہی اور افتراق سے بچانے کیلئے نصائح اور خطبات ارشاد فرمارہے تھے یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ سیدنا حضرت علیؓ کی طرف سے اجتماعی طور پر لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہوجائے جبکہ حضرت علیؓ کا شمار کبار صحابہ اور السابقون الاولون میں ہے ، اور جبکہ انہوں نے آگے چل کر اپنے وقت میں اس امت کی قیادت و سیادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں ، اس لئے حضورﷺ نے ‘‘غدیر خُم’’ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا جسمیں سیدنا علیؓ کی نہ صرف براءت ظاہر فرمائی ، بلکہ امت کو حکم دیا کہ وہ حضرت علیؓ کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھے۔(دیکھئے البدایہ و النھایۃ :5/106)
چنانچہ حضرت براء بن عاذب اور حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ جب ‘‘غدیر خُم’’(کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کا محبوب(اولیٰ) ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب (اولیٰ) ہوں؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا اے اللہ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علیؓ بھی اس کے محبوب(مولیٰ) ہیں ، اے اللہ!جو علیؓ سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات)کر ، اور جو علیؓ سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر۔(مشکوٰۃ مع المرقاۃ:10/475 بحوالہ احمد)
1) مذکورۃالصدر حدیث اور اس کے پسِ منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ آنحضرتﷺ کا مقصد حضرت علیؓ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علیؓ کی طرف سے بعض معاملات میں رفقاءِ سفر کے ذہنوں میں پیداہوئے، اور حضرت علیؓ کی براءت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے۔ اگر آپﷺ کا مقصد حضرت علیؓ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس کا اظہار فرمادیتے کہ حضرت علیؓ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے۔
2) لغت کے مشہور امام ابن اثیرؒ لفظ ‘‘مولیٰ’’ کے تحت لکھتے ہیں:
اور یہ لفظ ‘‘مولیٰ’’ایک ایسا لفظ جو کئی معانی پر بولا جاتا ہے ، پس مولیٰ کے معنیٰ پروردگار ، مالک، سردار ، محسن ، آزاد کرنے والا ، مددگار ، محبت کرنے والا ، فرمانبردار ، پڑوسی ، چچازاد بھائی ، عہد وپیمان کرنے والا ، عقد کرنے والا ، داماد ، غلام ، آزاد کردہ غلام ، اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنیٰ مراد لیا جاتا ہے۔ (النہایۃ:5/228)
3)مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ولایت کے عداوت کے ساتھ تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ‘‘مولیٰ’’اور ‘‘اولیٰ’’وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنیٰ ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے ، اگر محبت کا معنیٰ مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا۔
 
4) نیز’’مولیٰ‘‘ سے امامت اور خلافت کا معنیٰ مراد لینے کی صورت میں لازم آئیگا کہ آپﷺ کی حیات ہی میں آپﷺ کے ساتھ حضرت علیؓ بھی امام اور خلیفہ ہوں ، کیونکہ حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علیؓ آنحضرتﷺکے بعد مولیٰ ہوں گے، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ اس علیؓ مولیٰ۔اگر یہاں محبت والا معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علیؓ کےآنحضرتﷺ کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں بلکہ امامت اور خلافت کے سلسلہ میں حضورﷺ کے ساتھ حضرت علیؓ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو شیعہ حضرات کو بھی تسلیم نہیں۔ لہٰذا اس حدیث سے وہی معنیٰ متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔
5) ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ‘‘مولیٰ’’حضرت زید بن حارثہؓ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ایک موقع پر آپﷺ نے ان سے فرمایا ‘‘أنت مولای و منی’’(آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھ سے ہیں) (طبقات ابن سعد:3/44) اور دوسری روایت میں ہے ‘‘أنت مولای و أحب القوم الیّ’’(آپ میرے مولیٰ ہیں اور مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں )(مصنف عبد الرزاق:11/227) اور ایک روایت میں ہے ‘‘أنت اخونا و مولانا’’(آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ ہیں)(طبقات ابن سعد:3/43)۔
اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنیٰ ہی متعین ہوں تو پھر چاہئے کہ حضرت زید بن حارثہؓ بھی آپﷺکے بعد امام اور خلیفہ بلافصل ہوں۔ لیکن جب یہاں یہ معنیٰ مراد نہیں تو حدیث ‘‘من کنت مولاہ الخ’’میں بھی اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔
6) شیعہ کے خود ساختہ نظریۂ امامت و خلافت کے اس حدیث کے ساتھ عدمِ تعلق کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت حسنؓ کی اولاد میں سے حضرت حسن مثنیٰؒ سے کہا گیا کہ کیا ‘‘من کنت مولاہ’’کی حدیث میں سیدنا علیؓ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ خبردار! اللہ کی قسم اگر نبی ﷺ اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرمادیتے ، کیونکہ رسول اللہﷺ سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہوسکتا ، آپ صاف فرمادیتے کہ اے لوگو! یہ میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران ہوں گے ، انکی بات سنو اور اطاعت کرو ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم اگر حضرت علیؓ اللہ اور اسکے رسول کے حکم کو ترک فرمادیتے تو حضرت علیؓ سب لوگوں سے بڑھ کر خطاکار ہوتے۔(دیکھئے الصواعق المحرقۃ:ﺻ 48 و تحفۂ اثنا عشریۃ:ﺻ 209 و روح المعانی:6/195 و التاریخ الکبیر لابن عساکر: 4/166)
ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادۂ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دیدیا اور آنحضرتﷺ کے ارشاد مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کرکے مرادِ رسولﷺ کو متعین فرمادیا ، اس کے بعد کسی قسم کا شبہ نہیں رہنا چاہئے۔ (مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو کتاب:‘‘عقیدۂ امامت اور حدیثِ غدیر’’ﺻ64) (مأخذہ: رجسٹرفتاوی دارالعلوم کراچی : 88/287)
===========
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
 

اپنا تبصرہ بھیجیں