کیا یوگا اسلام میں جائز ہے

سوال:یوگا اسلام میں جائز یا نہیں؟

بِسْم ِﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

الجواب حامداومصلیا

یوگا سنسکرت لفظ ”یوج“ سے نکلا ہے جس کے معنی شامل ہونے اور متحد ہونے کے ہیں۔ یوگا کے معنی ذہنی گہری سوچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پُر اسرار رازوں تک پہنچنا ہے۔ (اسریٰ نعمانی یوگی تربیت یافتہ ہندوستانی نژاد مسلم صحافی) یوگا کی تقریباً 185ورزش کی ترکیبیں ہیں۔ یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے۔

ہندووٴں کی مقدس کتابوں ویدوں اور بھگوت گیتا میں یوگا کی تعلیمات ملتی ہیں۔ یوگا کو ہندووٴں کے مذہبی پیشوا رشی منی سادھو سنت اپنے مٹھوں میں ہندومذہبی عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فرض کے روزانہ انجام دیتے ہیں۔ بھگوت گیتا کا چھٹا باب فلسفہ یوگا کے لیے خاص ہے جس میں شری کرشنا نے ارجن کو یوگا کے سلسلہ میں تفصیل سے سمجھایا اور کہا کہ یوگا درد وتکلیف سے چھٹکارا دلاتا ہے اور یوگا کی مشق کرنے والا یوگی روحانیت الٰہی کی نعمت سے نفس کا اطمینان پالیتا ہے۔ ارجن نے شری کرشنا سے پوچھا ”تم نے یوگا کے متعلق بتایا روح کے متعلق بتایا لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ عقل مضبوط، ضدی اور پُر مقصد ہوتی ہے اس کو ہوا کی طرح خارج نہیں کیا سکتا ہے۔“ کرشنا نے جواب دیا یقینا عقل مضطرب ہوتی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہے لیکن اس کی تربیت ابھیاسا (Abhyasa) کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا (Vargaya) سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۲۰)

یوگا کی تعریف اس کے ارکان اور اس میں کیے جانے والے اعمال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ایک خالص ہندو مذہب کا حصہ ہے اور اس کی جڑیں ہندو تعلیمات سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندومت کی دھارمک شخصیتیں ومذہبی پیشوا اور ہندو احیا پسند تحریکات دراصل یوگا کے توسط سے ورن آشرم کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نسلی طبقاتی تفریق کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہندومت کو قومی وعالمی سطح پر ایک عظیم کامیاب نظام زندگی کے طور پر غالب کرنے کی کوشش میں ہیں۔

یوگا کی ہیئت کذائیہ یعنی ورزش کے معمولات ڈنڈ بیٹھک کی حد تک اس کی اصل سے علیحدہ کرکے شریعت کا حکم اگر معلوم کیا جائے، تو ظاہر سی بات ہے کوئی بھی مفتی وعالم یقینا ورزش کے زمرہ کی حد تک اسے جائز قرار دے گا۔ لیکن صرف ورزش کی حد تک فنی بنیادوں پر حاصل شدہ اجازت نامہ کی وجہ سے یوگا میں بے شمار مخفی، مشتبہ، مشکوک باتوں اور کفریہ وشرکیہ واضح دلائل کی موجودگی میں یوگا کی ممانعت کا حکم بھی ناقص اور مہمل نہیں سمجھا جائے گا۔

ایک ہے کہ یوگا ورزش کی حد تک جائز ہےتاہم یہ مُفْضِی اِلی الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ بھی ہے۔ دھیرے دھیرے یہی عمل یوگا سے الفت پیدا کردے گا لوگ یوگا کے سارے ارکان سے دلچسپی لینا شروع کردیں گے یوگیوں کے مٹھوں اور کیندروں میں جاکر یوگا کے ذریعہ سارے کفریہ اعمال انجام دیں گے یہاں تک کہ آنے والی نسل جب مسلمانوں میں رائج یوگا کو پائے گی تو انھیں اس وقت یوگا ایک اسلامی کلچر کی شکل میں نظر آئے گا اور اس کے قبیح ومذموم ہونے کی طرف اس کی توجہ بھی نہیں جائے گی۔ 

وَاللّٰہ اَعْلَمُ

اپنا تبصرہ بھیجیں