کیا زکوٰۃ کی رقم جمع کر کے دو تین سال بعد کسی کو یکمشت دی جا سکتی ہے

فتویٰ نمبر:1015

سوال: ایک رشتہ دار خاتون ہیں جو غریب ہیں بیٹی جوان ہے اگر ہم دو تین بہنیں اپنی زکوة سے کچھ حصہ (دو تین لاکھ) ہر سال جمع کرلیا کریں کہ دو تین سال بعد جب بھی لڑکی کی شادی ہو تو ہمیں یکمشت رقم نکالنا مشکل نہ ہو۔

ایسا کرنا کیسا ہے؟

شاہدہ کراچی

الجواب حامدۃًومصلیۃ ًو مسلمۃً

یہ طریقہ جائز ہے، زکوۃ ادا ہوجائے گی لیکن دو تین سال زکوٰۃ کی ادائی میں تاخیر درست نہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ سال تک ادا کر دیں،اگر سال سے زیادہ تاخیر کی اور اسی حالت میں موت آگئی تو گناہ گار ہوں گی اور موت سے پہلےاس کی وصیت کرنا بھی واجب ہے۔

البتہ اس صورت میں یہ مسئلہ ہوگا کہ ایک سال یا متعدد سالوں کی زکوۃ یکمشت دیں گے تو وہ بقدر نصاب سے بڑھ جائے گا او کسی فقیر کو اتنا دینا کہ وہ صاحب نصاب ہو جائے مکروہ ہے، لیکن فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ کراہت اس وقت ہے جب کوئی عذر نہ ہو، چنانچہ کسی معقول وجہ سے نصاب سے زیادہ رقم یکمشت دی جائے تو کراہت نہیں رہتی۔یہاں شادی کا عذر ہے۔ شادی میں کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اسراف اور غیر شرعی رسوم نہ ہوں لیکن اگر معاشرتی جبر کی وجہ سے خرچے زیادہ کرنا پڑیں تو عذر بن سکتا ہے اور اس بنا پر کراہت ختم ہوسکتی ہے۔

“وَقَالَ عَامَّةُ مَشَايِخِنَا: إنَّهَا عَلَى سَبِيلِ التَّرَاخِي وَمَعْنَى التَّرَاخِي عِنْدَهُمْ أَنَّهَا تَجِبُ مُطْلَقًا عَنْ الْوَقْتِ غَيْرَ عَيْنٍ فَفِي أَيِّ وَقْتٍ أَدَّى يَكُونُ مُؤَدِّيًا لِلْوَاجِبِ وَيَتَعَيَّنُ ذَلِكَ الْوَقْتُ لِلْوُجُوبِ وَإِذَا لَمْ يُؤَدِّ إلَى آخِرِ عُمُرِهِ يَتَضَيَّقُ عَلَيْهِ الْوُجُوبُ بِأَنْ بَقِيَ مِنْ الْوَقْتِ قَدْرُ مَا يُمْكِنُهُ الْأَدَاءُ فِيهِ وَغَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ أَنَّهُ لَوْ لَمْ يُؤَدِّ فِيهِ يَمُوتُ فَيَفُوتُ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَتَضَيَّقُ عَلَيْهِ الْوُجُوبُ حَتَّى أَنَّهُ لَوْ لَمْ يُؤَدِّ فِيهِ حَتَّى مَاتَ يَأْثَمُ وَأَصْلُ الْمَسْأَلَةِ أَنَّ الْأَمْرَ الْمُطْلَقَ عَنْ الْوَقْتِ هَلْ يَقْتَضِي وُجُوبَ الْفِعْلِ عَلَى الْفَوْرِ أَمْ عَلَى التَّرَاخِي كَالْأَمْرِ بِقَضَاءِ صَوْمِ رَمَضَانَ وَالْأَمْرِ بِالْكَفَّارَاتِ، وَالنُّذُورِ الْمُطْلَقَةِ، وَسَجْدَةِ التِّلَاوَةِ وَنَحْوِهَا فَهُوَ عَلَى الِاخْتِلَافِ الَّذِي ذَكَرْنَا وَقَالَ إمَامُ الْهُدَى الشَّيْخُ أَبُو مَنْصُورٍ الْمَاتُرِيدِيُّ السَّمَرْقَنْدِيُّ: ” إنَّهُ يَجِبُ تَحْصِيلُ الْفِعْلِ عَلَى الْفَوْرِ ” وَهُوَ الْفِعْلُ فِي أَوَّلِ أَوْقَاتِ الْإِمْكَانِ وَلَكِنْ عَمَلًا لَا اعْتِقَادًا عَلَى طَرِيقِ التَّعْيِينِ بَلْ مَعَ الِاعْتِقَادِ الْمُبْهَمِ أَنَّ مَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْفَوْرِ وَالتَّرَاخِي فَهُوَ حَقٌّ وَهَذِهِ مِنْ مَسَائِلِ أُصُولِ الْفِقْهِ.۔۔۔۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الْوُجُوبَ لَمَّا كَانَ عَلَى التَّرَاخِي عِنْدَنَا لَمْ يَكُنْ بِتَأْخِيرِهِ الْأَدَاءَ عَنْ أَوَّلِ أَوْقَاتِ الْإِمْكَانِ مُفَرِّطًا فَلَا يَضْمَنُ، وَعِنْدَهُ لَمَّا كَانَ الْوُجُوبُ عَلَى الْفَوْرِ صَارَ مُفَرِّطًا لِتَأْخِيرِهِ فَيُضْمَنُ.”( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:2/3)

“وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر ۔”

( الدرالمختار ،کتاب الزکاۃ، باب المصرف ،مطلب فی حوائج الأصلیۃ کراچی ۲/۳۵۳، زکریا۳/۳۰۳)

فقط ۔و اللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت ممتاز عفی عنھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی

27 شعبان،1439ھ/14مئی،2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں