کرایہ دارکی جانب سے سامان کے لیے شرائط

سوال: میرا گھر ہے جو میں نے کرایہ پر دیا ہوا ہے، اس میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ کرایہ دار جب بھی گھر میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کرے گا (جیسے کمروں کے درمیان لکڑی کی پارٹیشن لگانا، دیواروں میں الماریاں فکس کرنا جیسے ڈرل وغیرہ سے سوراخ کرکے راول بولٹ لگانا یا کہیں فائبر گلاس کی چھت لگانا یا ایلومینیم اور اینٹوں کا کمرہ بنادینا یا ماربل کے فرش پر لکڑی کی فلورنگ کردینا یا ماربل میں میں سوراخ کردینا وغیرہ) تو اس میں پہلے مجھ سے اجازت لے گا۔

اب میں اس کو اجازت دیتا ہوں لیکن ایک شرط کے ساتھ وہ یہ کہ جب بھی کرایہ دار گھر خالی کرے گا تو میری یعنی مالک مکان کی مرضی ہوگی کہ وہ (کرایہ دار) ان چیزوں کو اتار کر گھر پرانی حالت میں کرکے جائے یا ان کو اسی طرح لگا رہنے دے، دونوں صورتوں میں، میں یعنی مالک مکان اس کا کوئی معاوضہ نہیں دوں گا۔

کیونکہ اگر وہ ان چیزوں کو اتارتا ہے تو میری عمارت کی چیزوں کو بہرحال کسی نہ کسی درجے میں نقصان ہوتا ہے، مثلا وہ جتنے سوراخ دیوار میں کرے گا، اس سے دیوار کمزور تو ہوگی اگرچہ وی بعد میں اس کو بھردے، تو کیا میری یہ شرط لگانا جائز ہے۔؟

اگر ناجائز ہے تو اس شرط کی بنا پر جو چیزیں پہلے سے ہمارے پاس موجود ہیں اب ان کا کیا کیاجائے۔؟ اسی طرح ایسی صورت میں کیا شرط لگائی جائے کہ ہمارے گھر کی مضبوطی بھی باقی رہے اور کرایہ دار کی ضرورت بھی پوری ہوجائے۔؟

الجواب حامداومصلیا

(1) صورت مسؤلہ میں کرایہ دار پر شرط لگانا کہ گھر میں نصب کی جانے والی اشیاء گھر خالی کرتے وقت بلامعاوضہ مالک کی ہوں گی، ناجائز ہے۔ کرایہ دار اپنی اشیاء کا مالک ہے اور بلامعاوضہ اس کی چیز لینا جائز نہیں۔ لہذا اگر اس چیز کے اتارنے میں عمارت کا نقصان نہ ہو تو، وہ اپنی چیز اتار کر لے جاسکتا ہے اور اگر اتارنے میں عمارت کو نقصان پہنچتا ہو تو مالک مکان تنصیبات کی اکھڑی ہوئی حالت کی قیمت ادا کرکے خود مالک بن سکتا ہے۔

(2) اب تک جتنی چیزیں بلامعاوضہ لی گئی ہیں وہ اشیاء یا ان کی قیمت اصل مالکان کو واپس کرنا ضروری ہے ۔

اگر اشیاء نصب کرنے سے عمارت کو نقصان پہنچتا ہے تو کرایہ دار کو اشیاء نصب کرنے سے روکا جاسکتا ہے اور اگر اس کی ضرورت کے پیش نظر اجازت دینا ضروری ہو تو اس صورت میں درج ذیل صورتوں میں سے کسی پر عمل کیا جاسکتا ہے: 

١۔ تنصیبات کو باقی رکھا جائے اور ان کی قیمت کرایہ دار کو دی جائے۔ قیمت میں اکھڑی ہوئی حالت کا اعتبار ہے۔

٢۔ تنصیبات کرایہ دار اکھاڑ کر لے جائے اور مالک کی عمارت کو جو نقصان ہوا ہے اس کا کسی ثالث سے اندازہ لگا کر کرایہ دار نقصان مالک کو ادا کردے۔

٣۔ تنصیبات لگانے کے بعد کرایہ میں اضافہ کیا جائے اور گھر خالی کرتے وقت تنصیبات اکھاڑ کر لیجانے کی اجازت دی جائے۔

الدرالمختار (6/30)

(و) تصح اجارة ارض (للبناء والغرس ) وسالم الانتفاعات کطبخ آجر وخزف ومقیلا ومراحا حتی تلزم الاجرة بالتسلیم امکن زراعتھا ام لا یجر (فان مضت المدة قلعھما وسلمھا فارغة) لعدم نھایتھما (الا ان یغرم لہ الموجر قیمتہ) ای بناء والغرس (مقلوعا) بان تقوم الارض بھما ویدونھما فیضمن ما بینھما اختیار (ویتملکہ) بالنصب عطفا علی “یغرم” لان فیہ نظرا لھما۔

فی الشامیة: (قولہ، لان فیہ نظرا لھما) حیث او جبنا للموجر تسلیم الارض بعد انقضاء مدة الا جارة وللمستاجر قیمتھما مستحقی القلع، لان اصل وضعھما بحق۔

واللہ اعلم

سید حسین احمد

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

فتوی نمبر: ٤٥/١٩٤٩

١١جمادی الاول ١٤٣٩

٢٩ جنوری ٢٠١٩

اپنا تبصرہ بھیجیں