لمبے بالوں کے کاٹنے کا حکم

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
سوال: 1 ۔میرے بال لمبے گھنے موٹے اور حد درجہ خشک ہونے کی وجہ سے بہت الجھ جاتے ہیں سلجھاتے میرے ہاتھ تھک جاتے ہیں۔ میں انھیں کم کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ بالوں کو مختلف لمبائی میں کاٹنے کی شریعت اجازت دیتی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ کیا اپنی سہولت کے لئے میں ایسا کر سکتی ہوں یا صرف شوہر کی خوشی کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ میں تو اپنی سہولت کے لئے کرنا چاہتی ہوں البتہ میرے شوہر کو بھی پسند ہے.
2 دوسرا جب میں انھیں سلجھاتی ہوں تو بائیں طرف لا کر نیچے سے سلجھاتی ہوں جب اوپر پہنچتی ہوں تو دو حصے کرکے سامنے دائیں بائیں ڈال لیتی ہوں پھر دائیں ہاتھ سے پہلے بائیں طرف کے بال کرکے پھر دائیں طرف کے بال سلجھاتی ہوں۔ کیا یہ خلاف سنت ہے اور مکروہ بھی؟

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب:
اگر آپ کےبال اس قدر گھنے اور لمبے ہیں کہ آپ کو پریشانی ہوتی ہے اور آپ اپنے بالوں کو اس طرز پر کاٹیں کہ مردوں، کفار اور فاسقات کی مشابہت نہ آئے تو پھر گنجائش ہوگی۔
2۔ بالوں کو کنگھی کرنے کے متعلق : “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دائیں جانب سے بال پہلے سنوارے اور پھر بائیں جانب”۔چونکہ یہی سنت طریقہ ہے، لہذا آپ کو بھی اسی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔
**********
حوالہ جات:
حدیثِ مباركه سے :

1۔عن علي رضي الله عنه قال نهی رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان تحلق المرأة رأسها۔
(الترمذی شریف:914)
ترجمہ:
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو اپنا سر حلق کرنے (مونڈنے) سے منع فرمایا۔‘‘

2۔إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليحب التيمن فى طهوره إذا تطهر، وفى ترجله إذا ترجل، وفى انتعاله إذا انتعل’
(سنن ترمذي:608)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضواور کنگھی فرمانے میں اور جوتاپہننے میں دائیں جانب سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

**********
کتب فتاوی سے:

3۔ قطعت شعر رأسها اثمت ولعنت زاد في البزازية وان يأذن الزوج لانه “لا طاعة لمخلوق في معصيه الخالق.
(الدر المختارمع ردالمحتار:359/5)

4۔’و إذا حلقت المرأة شعر رأسها فإن كان لوجع أصابها فلا بأس به، و إن حلقت تشبه الرجال فهو مكروه، و إذا وصلت شعرها بشعر غيرها فهو مكروه.‘‘
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق:8/ 233)

5۔”و لو حلقت المرأة رأسها فإن فعلت لوجع أصابها لا بأس به، و إن فعلت ذلك تشبهًا بالرجل فهو مكروه، كذا في الكبرى.‘‘
(الفتاوى الهندية 5/ 358)

6۔المرأة إذا قطعت شعرها اثمت تحت اللعنة ، وعليها أن تستغفر الله تعالى و تتوب.
(جمل الاحكام : 165/1)

7۔و فی الملتقط للشیخ أبي القاسم السمرقندى : لا يحل للمرأة قطع شعرها كما لا يحل للرجل قطع لحيته وكذلك لو أذن الزوج في القطع لا يجوز لها.
(الملتقط : 102)
**********
اردو فتاوی سے:

8۔عورتوں کیلئے بالوں کا کاٹنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد عورتوں کو کندھوں تک بال رکھنے اور آگے کے بالوں کو کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔۔۔
( فتاوی دارالعلوم زکریا:360/7)

9۔سوال: میری بارہ سالہ بچی کے بال بہت لمبے اور گھنے ہیں جس دن تک پہنچتے ہیں بالوں کو دھونا اور صاف رکھنا اس کے لئے مشکل ہے جو پڑھنے کا دن اچھا ہے اسی صورت میں بالوں کی لمبائی قدرے کم کر دی جائے تو لڑکی باآسانی اپنے بالوں کو سنبھال سکے گی۔ تو قدرے بال کٹوانا دینا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: گھنے اور لمبے بال ۔۔۔۔۔۔۔
لہذا بالوں کو چھوٹا نہ کیا جائے البتہ اتنے بڑے ہو کہ سرین سے بھی نیچے ہوجائیں اور عیب داد معلوم ہونے لگیں، تو سرین سے نیچے والے حصے کے بالوں کو کاٹا جاسکتا ہے۔۔
(فتاوی رحیمیہ: 751/3)

واللہ سبحانہ اعلم

10 ربیع الاول،1444ھ
5 اکتوبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں