کمیشن ایجنٹ کی اجرت کاحکم

کیا فرماتے ہیں علماء دین اور مفتیان شرع اس بارے میں کہ مندرجہ ذیل ہے۔

زید نے 1لاکھ روپے عمر کے حوالے کیے اس شرط پر کہ عمر اس سرمایہ کو دوسرے شہر (بنوں سے کراچی) منتقل کرے گا اور وہاں پر عمر کا دوست خالد اس روپیہ کو (لیدر کے کاروبار میں یا کسی اور کاروبار جوکہ جائز ہوگا) شراکت میں لگائے گا اور اس کا جتنا منافع کراچی سے معرفت عمر کے نام سے زید کو ملے گا، عمر اس سے مخصوص %30 اپنے لیے لے گا اور بقایا منافع زید کو اداکرے گا۔ نیز عمر کی حیثیت وکیل کی سی ہوگی، اور سرمایہ ڈوبنے یا گم ہونے وغیرہ کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ 

واضح رہے کہ اس قسم کے کاروبار کرنے والے عموما مولوی، مفتی، دینی ادارہ کے مدرسین حضرات ہیں۔ اور وہ اپنے سرمایہ پر خطیررقمیں منافع کی اب تک وصول کرچکے ہیں اور نقصان کی اطلاع کہیں نہیں سنی گئی۔

واضح فرمادیں کہ زید عمر اور خالد تینوں کی شرعی حیثیت سے ایسا کرنا جائز ہے کہ نہیں بینو توجروا

عمر زاد خان 

سوکڑی کریم خان

بنوں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامداومصلیا

صورت مسئولہ میں اگر عمر نے زید سے مال لیتے وقت اپنے مضارب ہونے کی تصریح نہیں کی ہے بلکہ زید کی رقم ان کے کہنے پر خالد کو دی ہے، جیسا کہ سوال میں ہے، تو یہ معاملہ زید اور خالد کے درمیان مضاربت کا ہے۔ جو فی نفسہ جائز ہے اور عمر کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہوگی۔ اس صورت میں عمر کے لیے صرف پہلی مرتبہ نفع سے متعین کردہ فیصد اپنے لیے بطور اجرت وصول کرنا جائز ہے لیکن عام حالات میں بطور اجرت مال مضاربت سے حاصل شدہ نفع کا تناسب طے کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں اجرت مجہول ہے، جس سے اجارہ فاسد ہوجاتا ہے، البتہ کمیشن کا فیصد کے اعتبار سے لینا صحیح ہے۔

اور چونکہ مذکورہ سوال موجودہ مروجہ مضاربہ کمپنیوں سے متعلق معلوم ہوتا ہے، لہذا پہلے یہ سمجھنا مناسب ہے کہ کسی کمپنی/ادارہ کے کاروبار کے جوازیا عدم جواز کا حکم لگانے کے لیے کئی امور کا معلوم ہونا ضروری ہے، مثلا وہ کمپنی یا ادارہ کن معاہدوں کی بنیاد پر لوگوں سے رقوم لے رہا ہے اور کیا وصول کی جانے والی رقوم حقیقت میں کسی کاروبار میں لگائی جارہی ہیں یا نہیں ؟ اور وہ کاروبار جائز بھی ہے یا نہیں اور اس کے روزمرہ کے معالمات شریعت کے مطابق ہورہے ہیں یا نہیں ؟ نیز وہ کمپنی قانونی تقاضوں کو پورا کر رہی ہے یا نہیں؟ نیز کسی خاص کمپنی کے بارے میں جواز کا فتوی دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کاروبار کو عملا دیکھا جائے ، شرعی آڈٹ کیا جائے، اس کے بعد اگر اطمینان ہو تو فتوی دیا جائے۔

لیکن مروجہ مضاربہ کمپنیوں کے بارے میں ہمیں پوری طرح معلومات نہیں، نیز ہم نے ان کا کاروبار دیکھا بھی نہیں ،لہٰذا مذکورہ اداروں اور کمپنیوں کے کاروبار کے جوازیا عدم جواز کے بارے میں فی الحال دارالافتائ جامعہ دارالعلوم کراچی سے کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔   

نوٹ

عوام الناس کو چاہیے کہ کسی کاروبار میں رقم لگاتے ہوئے ہمیشہ بہت احتیاط سے کام لیں۔ صرف اسی جگہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو جائز بھی ہو اور قانون کے مطابق بھی ہو تاکہ ملکی قانون کی خلاف ورزی کا گناہ لازم نہ آئے اور حلال سرمایہ بھی محفوظ ہوسکے، کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں کہ بظاہر جائز معاہدوں کی بناء پر اور بڑے حلال منافع کا لالچ دے کر لوگوں سے رقوم لی گئیں، لیکن بعد میں خردبرد کرکے عوام کو ان کے سرمایہ سے محروم کردیا گیا۔

(ماخد التبویب ٦٦/١٣٥٨ )

(فی لشامیہ: ٤٧/٦)

تفسد الاجارة بالشروط المخالقة لمقتضی العقد فکلما افسد البیع مما مر یفسد کجھالة ماجور او اجرة او مدة او عمل وکشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار او مغارمھا وعشر او خراج او مؤنة رداشباہ۔۔۔قولہ او مدة الا فیما استثنی قال فی البزازیہ اجارة المسمار والمنادی والحمامی والصکاک ومالا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان لناس بہ حاجة ویطیب الاجر الماخوذ لو قدر اجر المثل ۔

فیہ ایضا (٦٣/٦)

وفی الحاوی محمد بن سلمة عن اجرۃ السمسار فقال ارجو انہ لاباس بہ وان کان فی الاصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ھذا غیر جائز فجوزوہ لحاجة الناس الیہ کدخول الحمام۔۔۔۔۔۔۔واللہ سبحانہ اعلم

فدا محمد غفرلہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

٢٧ جمادی الثانی ١٤٣٤ْ٥٨

عربی عبارات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پر کلک کریں : 

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/940117456357500/

کمیشن ایجنٹ کی اجرت کا حکم (1)

اپنا تبصرہ بھیجیں