معبودان باطلہ کو برا بھلا کہنا

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے دیوتاؤں کو برا نہیں کہنا چاہیے جیسے رام کرشن وغیرہ کیونکہ یہ نبی بھی ہوسکتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟
اگر دوسرے مذاہب کی کتابیں پڑھنا چاہیں جیسے گیتا رامائن یا بائبل تو پڑھ سکتے ہیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں دوسرے مذاہب کے دیوتاؤں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ سورة الانعام آیت نمبر 108میں ارشاد باری تعالی ہے:
ولَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍؕ۔
ترجمہ: اور اُنہیں برابھلا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ زیادتی کرتے ہوئے جہالت کی وجہ سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے۔

جہاں تک ان معبودان باطلہ کے نبی ہونے کی بات ہے تو اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔نیز قرآن کریم کی آمد کے بعد سابقہ تمام آسمانی کتابیں منسوخ ہوگئیں اور سابقہ آسمانی کتابوں میں تحریفات بھی بہت ہوئی ہیں، اس لیے عام آدمی کے لیے معلومات واستفادہ کی غرض سے تورات وانجیل وغیرہ کا مطالعہ درست نہیں۔
البتہ اگر کوئی متبحر عالم کسی دوسرے مذہب کی کتابوں کا مطالعہ اس مذہب والوں کے عقائد باطلہ کی تردید کی نیت سے کرے تواس کی گنجائش ہے ؛کیوں کہ اس کی تبحر علمی کی وجہ سے گمراہی کا اندیشہ نہیں ہے اور مقصد معلومات واستفادہ کرنا نہیں بلکہ اس مذہب کے لوگوں کے عقائد باطلہ کی تردید کرنا ہے، جو ایک صحیح ودرست مقصد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔عن جابر رضی اللہ عنہ ان عمر بن الخطاب رضي الله عنهما اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة فسكت فجعل يقرا ووجه رسول الله يتغير فقال ابو بكر ثكلتك الثواكل ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال اعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وادرك نبوتي لاتبعني۔ ‏‏‏‏
(مشکوة المصابیح: 124)
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تورات کا ایک نسخہ لے کر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ تورات کا نسخہ ہے، آپ خاموش رہے، اور انہوں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا، جبکہ رسول اللہ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدلنے لگا، ابوبکر نے فرمایا: گم کرنے والی تمہیں گم پائیں، تم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رخ انور کی طرف نہیں دیکھ رہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا تو فوراً کہا: میں اللہ اور اس کے رسول صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے۔ اگر موسیٰ ؑ بھی تمہارے سامنے آ جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگو تو تم سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے، اور اگر وہ زندہ ہوتے اور وہ میری نبوت (کا زمانہ) پا لیتے تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے۔ “

2۔ “النبي من أوحی إلیہ وحیا خاصا من اللہ تعالیٰ بتوسط ملک، أو بإلہام في قلبہ أو بالرؤیا الصالحۃ، وقد ختمت النبوۃ وانقطع الوحي بخاتم الأنبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ (قواعد الفقہ: 521)
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب
٢٨ رجب ١۴۴٣ھ
20 فروری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں